• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 146464

    عنوان: جائداد کا جھگڑا؟

    سوال: میرے والد صاحب نے دوشادیاں کی تھیں۔ تفصیل یہ ہے کہ جب پہلی بیوی کا انتقال ہوا تواس کے بعد دوسری شادی کرلی۔پہلی بیوی کی اولاد کچھ عرصہ تک والد صاحب کے ساتھ تھی پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعدبیٹیاں شادی ہوکر اپنے گھروں کو چلی گئیں اوربیٹے بھی الگ رہائش پذیر ہوئے ۔جبکہ دوسری بیوی اور اس سے ہونے والی اولاد والد صاحب کے ساتھ ہی رہتے تھے ۔واقعہ یہ ہے کہ والد صاحب جس مکان میں رہتے تھے وہ کچا یعنی مٹی کا بناہوا تھا بارشوں میں وہ گرگیا تودوسری بیوی نے اپنی کچھ ذاتی زمین جو ُن کو اپنے والد کی وراثت میں ملی تھی بیچ کر دوکمرے بنوالئے ۔پھر کچھ عرصہ بعد یہ پورا مکان والدصاحب دوسری بیوی کے دوبیٹوں کے نام کردیا لیکن خود بھی اسی مکان میں رہتے رہے ۔کچھ عرصہ بعد یہ مکان بیچ دیا گیا اور والد صاحب نے اپنی زرعی زمین میں مکان تعمیر کیا اور بمعہ دوسری بیوی اور اُن سے ہونے والے بیٹوں کے اُس مکان میں منتقل ہوگئے ۔اور وفات تک اس مکان میں تھے ۔جب والد صاحب کا انتقال ہوا اور اس مکان کوبطور وراثت تقسیم کرنے کی باری آئی تو دوسری نے پہلی بیوی کی اولاد سے کہا کہ اس مکان کے صحن میں تمہارا حق بنتا ہے لیکن آبادی میں تمہارا کوئی حق نہیں کیونکہ یہ مکان پہلے والے مکان کو بیچ کر تعمیر کیاگیا ہے اور پہلے والے مکان میں دوکمرے میں نے اپنی زمین بیچ کر تعمیر کروائے تھے لہذا اس مکان کی آبادی میری ملکیت ہے ۔(یارہے دوسری بیوی نے پہلے والے مکان میں صرف دوکمرے تعمیر کروائے تھے جبکہ دوسرے مکان میں تین کمرے ایک عدد باورچی خانہ اور دو باتھ روم ہیں۔) پہلی بیوی کی اولاد نے کہا کہ جتنے پیسے آپ نے اُس مکان میں لگائے تھے ہم وہ پیسے آپ کو دے دیں گے توجواب ملا کہ جتنی زمین میں نے بیچی تھی اُتنی زمین والد صاحب کی زمین سے مجھے دے دی جائے ۔پہلی بیوی کی اولاد نے کہا کہ وہ مکان تو فروخت ہوگیا اُس کی کہانی ہی ختم ہوگئی اب جومکان موقع پر ہے اُس کی بات کی جائے ۔نیز اُس مکان میں تودوسری بیوی کی اولاد نے بھی کچھ زمین خریدنے کے لئے رقم دی تھی پھر اُس کا بھی حساب کریں۔ تواس بات کو اُنہوں نے تسلیم نہیں ۔یعنی دوسری بیوی نے جوپیسہ لگایا اُس کوتوحساب میں لایا گیا اور پہلی بیوی کی اولاد نے اُس مکان کی خریداری کے لئے جو پیسے دئے تھے اُس کو حساب میں نہیں رکھا۔ مختصر یہ کہ پہلی بیوی کی اولاد کو مکان کی آبادی میں حصہ اس شرط پر دیاگیا کہ والد صاحب کی جائدا د میں اُتنی زمین اُن کو دے دی گئی ۔(ابھی زرعی زمین میں ورثاء کو باقاعدہ اپنے الگ الگ حصے نہیں دئے گئے تھے صرف پیداوارمیں سب اپنا اپنا حصہ لیتے تھے اس لئے دوسری بیوی کو مذکورہ زمین الگ کرکے نہیں دی جاسکی لیکن جس دن سے یہ فیصلہ ہوا کہ اُن کی اُتنی زمین دی جائے گی اُس دن سے اُتنی زمین کی پیداوار دوسری بیوی لیتی تھی۔اور اُسی دن یہ بھی فیصلہ ہوا تھا کہ دوسری بیوی کی اولاد کا جو حصہ بنتاہے تودوسری بیوی کی اولاد اُس کی قیمت پہلی بیوی کی اولاد کو اداکرے گی۔اُسی دن رقم بھی متعین کردی گئی۔اس فیصلہ کے بعد تقریبًا دوسال گزر گئے پہلی بیوی کی اولاد کو اُن کے حصہ کی قیمت ادا نہیں کی گئی۔دوسال بعد دوبارہ اس فیصلہ کو تازہ کیا گیا اور دونوں بیویوں کی اولاد نے باہم مشاورت سے ایک تحریر لکھ دی جس میں رقم کی ادائیگی کی مدت دومہینے مقرر کی۔اور اُسی دن زمین کی بھی حد بندی کی گئی اور دوسری بیوی کو اُن کی زمین الگ کر کے دے دی گئی جس کی پیداوارپہلے سے اُن کی جاتی تھی۔یہ دومہینے کی مدت بھی گزر گئی۔ جب دوسری بیوی کی اولاد سے رقم مانگی گئی تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ابھی توزمین باقاعدہ انتقال نہیں ہوا جب زمین کاانتقال ہوجائے گا توپھر ہم رقم ادا کردیں گے ۔ سوال نمبر1:۔کیا دوسری بیوی نے پہلے والے مکان میں دوکمروں کی تعمیر کے لئے جوزمین بیچ دی تھی اُس کی وجہ سے نئے مکان کی تمام آبادی کو اپناحق سمجھنا درست ہے ۔اور جو زمین اُنہوں نے لی ہے اور پیداواراُن کو جاتی رہی کیا شرعی لحاظ سے وہ اُن کے لئے حلال ہے کیونکہ اُن کا کہنا ہے کہ اس زمین کو بیچ کر میں حج کروں گی۔نیز کیا ملیکت کے لئے سرکاری کاغذات میں انتقال شرط ہے یا جس طرح امین دے دی گئی ہے اُس طرح ملکیت ثابت ہوگئی ہے ؟ سوال نمبر2:۔ پہلی بیوی کی اولاد نے پرانے مکان کی خریداری میں جو رقم ادا کی تھی کیا اُس کا مطالبہ کیاسکتا ہے اور اگر اُن کویہ حق نہیں دیاجاتاتوکیا نہ دینے گنہگار ہوں گے ؟ سوال نمبر3:۔ مقرررہ مدت میں پہلی بیوی کی اولاد کو رقم ادا نہیں کی گئی ،اب اگر پہلی بیوی کی اولاد اُس فیصلہ کو ماننے سے انکار کرتی ہے اور ازسرے نو کوئی نئے فیصلے کا مطالبہ کرتی ہے تو کیا پرانے فیصلے سے انکار کی وجہ سے اُن پر کوئی گناہ ہوگا؟

    جواب نمبر: 146464

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 196-035/D=3/1438

     

    مالی نزاعی معاملات میں کوئی فیصلہ کن بات اس وقت کہنا جائز ہوتا ہے جب دونوں فریق کی بات سن لی جائے اس لیے یا تو سوال نامہ سب شرکاء کی طرف سے متفقہ آنا چاہئے یا پھر باہم مصالحت کی مجلس کرکے جسمیں چند معاملہ فہم لوگ شامل ہوں اور بہتر ہے کہ کوئی عالم بھی ہو آپسی گفت و شنید سے معاملہ طے کر لینا چاہئے سوال نامے سے معلوم ہوتا ہے کہ شرکاء نے مل کر کوئی متفقہ فیصلہ کیا ہے اگر ایسا ہوا ہے تو عدل و انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ اس متفقہ مصالحتی فیصلے پر خوشی بخوشی عمل در آمد کیا جائے خواہ مخواہ کے لیے ٹال مٹول کرنا یا معاملہ کو پیچیدگی یا التواء میں ڈالنا برا ہے پس اسی طے شدہ فیصلہ پر عمل در آمد کریں، ہاں شرعی نقطہ نظر سے کسی جز کا حکم معلوم کرنا ہو تو اسے معلوم کرسکتے ہیں بہتر ہے کہ متفقہ سوال سب کے دستخط سے بھیجیں کیونکہ جب سوال سب کے نزدیک مسلّم اور واقع کے مطابق ہوگا تو اس کے حکم شرعی کو جو یہاں سے لکھا جائے گا تسلیم کرنے میں پس و پیش نہ ہوگا۔

    واقعہ سے قطع نظر آپ کے سوالات کے جوابات یہ ہیں۔

    (۱) زمین بیچنا ان کا اختیاری عمل تھا اس کا تدارک کسی سے حاصل کرنے کی بات شرعاً غلط ہے البتہ جو رقم انہوں نے پہلے مکان کی تعمیر میں لگائی اگر اپنے شوہر کو بطور تبرع نہیں دیا تھا بلکہ واپسی کی شرط پر یا بطور قرض دیا تھا تو اس قدر رقم لینے کی وہ حق دار ہیں اگر دوسرے ورثاء اس کو تسلیم کریں تو اس قدر رقم شوہر مرحوم کے ترکہ میں سے لے سکتی ہیں خواہ موجودہ میں سے لیں یا دوسرے ترکہ میں سے لیکن اگر سب شرکاء نے مل کر اس رقم کے کچھ زرعی زمین دینا منظور کر لیا تو پھر اس زمین کی مالک ہو جائیں گی اس کی پیداوار حاصل کرنا بھی ان کے لیے جائز ہوگا، مالک ہونے کے لیے تبادلہ کا معاملہ مکمل ہو جانا کافی ہے کاغذات میں منتقلی ضروری نہیں ہے ۔

    (۲) پہلی بیوی کی اولاد نے والد کی مدد کی غرض سے یا بطور تبرع رقم لگائی تھی تو اس کے مطالبہ کا حق نہیں ہے اور اگر بطور قرض دیا ہو اور دوسرے شرکاء اسے تسلیم کرلیں یا ثبوت و شہادت موجود ہو تو پھر اسی قدر رقم لینے کا حق ہوگا، کسی صاحب حق کا حق نہ دینا اسے غصب کرنا گناہ اور ظلم ہے۔

    (۳) اگر فیصلے کاوقت مقرر تھا تو مقررہ وقت میں ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں معاہدہ کو ختم کرنے کا اختیار دوسرے فریق کو حاصل ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند