• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 145392

    عنوان: مرحومہ بیٹی کی اولاد کا حق وراثت

    سوال: زید اور اس کی بیوی کی جملہ دس اولادیں تہیں، پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں تمام لڑکے تو بقید حیات ہیں لیکن دو لڑکیاں، جن میں سے ایک شادی شدہ(دیگر شہر میں) اور بچوں والی تہی، زید کی زندگی میں ہی انتقال کرگئی اور چند ماہ بعد اس کا شوہر بھی فوت ہوگیا، بچے یتیم و یسیر ہوگئے ، جبکہ دوسری جو ابہی کنواری تھی زید کی وفات کے چند برس بعد انتقال کرگئی- بقیہ تین لڑکیوں کی شادیاں ہوچکیں، دو اسی گاؤں میں اور ایک اپنے شوہر کیساتھ بیرون ملک رہتی ہے ، آج سے بائیس برس پیشتر زید کا اور پندرہ برس پیشتر اس کی بیوی کا انتقال ہوچکا،ترکہ میں ایک مکان اور قابل کاشت کچھ زمین تھی جس کی زرعی آمدنی غالباً صرف مقیم بھائی بہن ہی آپس میں تقسیم کرلیتے ۔ کچھ سال پہلے جب زمینوں کی قیمتں عروج پر تھیں مقیمین پانچ بھائی اور دو بہنوں نے آپس میں سانٹھ گانٹھ کرکے بیرونی حصہ داروں یعنی باحیات ولایتی بہن اور مرحومہ بہن کے یتیم و یسیر بچوں کو غافل رکھ کر زرعی زمین کا کچا سودا ایک پلاٹنگ کے سوداگر سے اس معاہدے کیساتھ کیا کہ طئے شدہ نرخ سے ایک مدت کے دوران قریبا پانچ حصوں میں جیسے جیسے پلاٹ فروخت ہوں گے زمین حوالے کی جا ئے گی اور پہلے دو حصوں کی رقم لے کر مقیمین ساتوں بھائی بہنوں نے آپس میں بانٹ لی جس کی دوسرے حصے داروں کو بھنک تک نہ ہونے دی۔ سوداگر کے پختہ رجسٹری کے تقاضے کو یہ کہکر ٹالتے رہے کہ صرف ایک بہن جو ولائت رہتی ہے کہ پاوَر آف اٹارنی لینا باقی ہے ، اس کے آتے ہی مطالبہ پورا کردیں گے ۔۔اس ولایتی بہن کے آتے ہی تمام بھائیوں نے بنا اس کے علم میں لائے سودا کرلینے کی معذرت کی اور ساری تفصیل سناڈالی کہ اشد ضرورت کے تحت پچھلی تمام رقم ساتوں بھائی بہنوں نے بانٹ لی اور پاوَر آف اٹارنی کی گزارش کی کہ سوداگر نے رجسٹری کیلئے ناک میں دم کررکہا ہے ، اس کا مطالبہ پورا ہوتے ہی اگلے حصے کی رقم سے تمہارے مکمل حصے کی ادائیگی کی جائیگی- بہن نے سگے بھائی بہنوں پر بھروسہ کیا اور دستخط کردیئے ۔لیکن تب تک زمینوں کے مارکیٹ میں مندی آنے کی وجہ سے سوداگر نے اگلا حصہ ابھی خریدنے سے لاچاری ظاہر کردی۔اس طرح ایک با حیات بہن اور دوسری مرحومہ بہن کے بچوں کو ابتک کسی بھی حصے کی ادائیگی سے مکمل محروم رکھا گیا۔سنا ہے کہ ان یتیم و یسیر بھانجے بہانجیوں کے تعلق سے مقیمین ماموؤں اور خالاؤں کا کہنا ہے ، چونکہ ان کی بہن (یتیم و یسیر بچوں کی ماں) کا انتقال اسکے والد زید کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا۔ اس لئے شرعی اعتبار سے ان بچوں کے نانا کی جائیداد پر کوئی حق نہیں بنتا- کیا یہ سچ ہے ؟اگر یہ حقیقت ہے تو کیاوالد کی زندگی میں وفات پانے والے مرحوم بیٹے کیاولادوں کے لئے بھی ایسی ہی شرط لاگو ہوگی؟باحیات ولایتی بہن اب کیا کرے ؟ شرعی عدالت رجوع ہونا بہتر ہوگا یا سول کورٹ؟ مقدمہ کے بنیادی نکات کیا ہونے چاہئے ؟

    جواب نمبر: 145392

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 8-8N38=1/1438 (۱، ۲): جی ہاں! زید کی جس بیٹی کا انتقال زید کی حیات ہی میں ہوگیا، اس کی اولاد کا زید کے ترکہ میں کوئی حصہ نہ ہوگا؛ کیوں کہ وہ ذوی الارحام سے ہیں جو عصبات کی موجودگی میں وارث نہیں ہوتے۔ اسی طرح اگر خدانخواستہ زید کے کسی بیٹے کا انتقال زید کی حیات ہی میں ہوجاتا تو صورت مسئولہ میں دیگر بیٹوں کی وجہ سے مرحوم بیٹے کی اولاد بھی وراثت کی حق دار نہ ہوتی؛ البتہ ماموں اور خالائیں اپنی مرضی وخوشی سے اپنے ترکہ سے مرحوم بہن کی اولاد کو کچھ دینا چاہیں تو اس میں شرعاً کچھ رکاوٹ نہیں۔ (۳):جو بہن اپنے شوہر کے ساتھ کسی دوسرے ملک میں رہتی ہے، وہ اپنے حق کی وصول یابی میں جو کوشش کرسکتی ہو، کرے، شرعی عدالت سے رجوع کرے، اور اگر بھائی بہن شرعی عدالت میں حاضر ہونے کے لیے تیار نہ ہوں تو کسی اچھے وکیل سے مشورہ کرکے اپنے حق کی وصول یابی کے لیے سول کورٹ سے بھی رجوع ہوسکتی ہے اور یہ بھی درست ہے کہ جو جائداد ابھی فروخت نہیں ہوئی، اگر وہ اس کے حصہ شرعی سے کم نہ ہو تو وہ اپنے حصے کے بقدر جائداد ان سے لے کر خاص اپنے نام رجسٹری کرالے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند