• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 13717

    عنوان:

    میرے سسر کا جون 2008میں انتقال ہوا۔ انھوں نے اپنے پیچھے ایک مکان چھوڑا (جس کی مالیت تقریباً ستر سے پچہتر لاکھ روپیہ ہے) اور دو کرایہ کی دکان جس میں لانڈری کا کاروبارہے (بڑی دکانیں جس کی ماہانہ آمدنی لگ بھگ پچاس ہزار روپیہ تھی اور ایک چھوٹی دکان جس کی ماہانہ آمدنی لگ بھگ پانچ ہزار روپیہ تھی)۔ ان کے گھر میں میری ساس، تین سالے اور سات سالیاں ہیں۔ سب کے سب شادی شدہ ہیں اورکوئی بھی سالی مطلقہ نہیں ہے اور ایک بیوہ ہے (اس کے دو بچے ہیں)۔ میرے سسر کی کوئی بھی بہن، بھائی یا والدین حیات نہیں ہیں۔برائے کرم ہمیں بتائیں کہ وراثت کی یہ رقم تمام ورثاء کے درمیان کیسے تقسیم کریں گے اور ہر ایک وارث کاحصہ کتنا ہوگا؟

    سوال:

    میرے سسر کا جون 2008میں انتقال ہوا۔ انھوں نے اپنے پیچھے ایک مکان چھوڑا (جس کی مالیت تقریباً ستر سے پچہتر لاکھ روپیہ ہے) اور دو کرایہ کی دکان جس میں لانڈری کا کاروبارہے (بڑی دکانیں جس کی ماہانہ آمدنی لگ بھگ پچاس ہزار روپیہ تھی اور ایک چھوٹی دکان جس کی ماہانہ آمدنی لگ بھگ پانچ ہزار روپیہ تھی)۔ ان کے گھر میں میری ساس، تین سالے اور سات سالیاں ہیں۔ سب کے سب شادی شدہ ہیں اورکوئی بھی سالی مطلقہ نہیں ہے اور ایک بیوہ ہے (اس کے دو بچے ہیں)۔ میرے سسر کی کوئی بھی بہن، بھائی یا والدین حیات نہیں ہیں۔برائے کرم ہمیں بتائیں کہ وراثت کی یہ رقم تمام ورثاء کے درمیان کیسے تقسیم کریں گے اور ہر ایک وارث کاحصہ کتنا ہوگا؟

    جواب نمبر: 13717

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1034=978/ب

     

    سسر کے انتقال کے بعد وصیت وقرض کی ادائیگی کے بعد ان کا کل ترکہ از روئے شرع 104 حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے آپ کی ساس کو 13 سہام ، اور تینوں لڑکوں میں سے ہرایک کو 14-14 سہام، اور ہرایک لڑکی کو 7-7 سہام ملیں گے۔ خلاصہ یہ ہے کہ کل ترکہ کو 8حصوں میں تقسیم فرمالیں اس میں ایک حصہ (آٹھواں) مرحوم کی بیوی کو دیدیں، باقی ماندہ کو 13 حصوں میں تقسیم کرکے2-2 حصے لڑکوں کو اور ایک ایک حصہ لڑکیوں کو دیدیں۔ دونوں حسابوں کا ماحصل ایک ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند