• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 131121

    عنوان: ماموں کی وراثت؟

    سوال: میرے ایک ماموں تھے جو میری والدہ کے چچازاد بھائی اور ماموں زاد بھائی بھی تھے، (چونکہ دو سگی بہنوں کی شادی دوسگے بھائیوں سے ہوئی تھی)، انہوں نے شادی نہیں کی تھی اور نانا نانی کے مکان میں رہتے تھے جس میں ان کے ساتھ میری والدہ کا حصہ تھا، وہ اپنی ضروریات کے لیے میری والدہ پر منحصر تھے، میری والدہ نے کہا میں تم اپنی خالہ کو چہرہ کیسے دکھاوٴگے اگر میں نے اپنے بھائی کے ساتھ کوئی نا انصافی کی ۔ ماموں کی خاطر کچھ نہ کرنے پر والدہ پریشان تھیں۔جب ماموں حیات تھے تو ہم نے بات چیت کہ اگر آپ ہمیں اپنے حصے میں تعمیر کی اجازت دیں تو آپ جائز طریقے سے ہم سے پیسے مانگ سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ نہ تو میں پیسہ لوں گا اور نہ ہی کسی کاغذپر دستخط کروں گا، تم تعمیر کرنا چاہتے ہو تم کہیں بھی کرسکتے ہو، لیکن ذہن میں یہ تب تک رہے گا جب تک ہمارے تعلقات اچھے رہتے ہیں،اگر مستقبل میں ہمارا تعلق اچھا نہیں رہتاہے تو تم کو ہر چیز چھوڑنی پڑے گی ۔ اس بات کو ناقابل عمل سمجھ کر کہ ہم کیسے مستقل تعمیر کرسکتے ہیں اور اس کو فوراً ہٹا سکتے ہیں اگر حالات اچھے نہیں رہتے ہیں، لہذا، کام آگے نہیں بڑھا۔ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ” میرے مرنے کے بعد سب تمہارا ہے“۔ہم ایک ساتھ رہے اور رضامندی سے ایک دوسرے کے حصہ کو استعمال کرتے رہے، دونوں جانب سے کوئی مجبوری یا ممانعت نہیں تھی۔ میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ کیا میں مکمل طورپر مستحق ہوں(میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں)یا مجھے کسی حصہ دینا پڑے گا؟اگر ہاں تو کس کو اور کتنا دینا پڑے گا؟

    جواب نمبر: 131121

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1124-203/D=01/1438

    ان کی زندگی میں آپ لوگوں نے جوکچھ استعمال کرلیا وہ تو ہوگیا لیکن ان کے یہ کہنے سے کہ ”میرے مرنے کے بعد سب تمہارا ہے“ آپ لوگ ان کی زندگی میں مالک نہیں ہوئے ہبہ کی شرائط نہ پائے جانے کی وجہ سے، البتہ یہ مرنے کے بعد کے لیے وصیت ضرور ہوگئی جس میں ۳/۱ (ایک تہائی) کی حد تک آپ لوگ مالک قرار پائیں گے (بشرطیکہ باعتبار وراثت کے آپ لوگوں کو حق نہ پہنچتا ہو) اور بقیہ ۳/۲ (دوتہائی) حصے مرحوم کے دیگر قریبی ورثا کو مثلاً بھائی چچا، چچازاد بھائی، بھتیجے خواہ دور کے رشتہ کے ہوں الاقرب فاالاقرب کے ضابطہ کے مطابق ملیں گے۔ دیگر ورثا کی تفصیل لکھیں تو ان کا حصہ مقرر کرکے بتلادیا جائے بہتر ہے کہ الاقرب فاالاقرب کے ضابطہ کے مطابق دیگر ورثا کی تفصیل کسی عالم سے لکھوالیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند