• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 11565

    عنوان:

    میں ایک ریٹائرڈ ٹیچر ہوں۔ میرے ایک شوہر دو لڑکے اور ایک لڑکی ہے۔ میرے تمام بچے شادی شدہ ہیں۔ میں نے 19x33 فٹ ایریا کا ایک مکان تعمیر کیا ہے جس میں تہہ خانہ ، گراؤنڈ فلور، فرسٹ فلور، اور سکنڈ فلورہیں۔ میں نے اوپر مذکور پلاٹ کو اپنی تنخواہ سے خریدا تھا۔ اس کی تعمیر میں تقریباً میں نے ستر فیصد خرچ کیا ہے جب کہ باقی میرے بڑے لڑکے نے دیا ہے۔ اب پراپرٹی میرے نام پر ہے۔ جب کہ میں بوڑھی ہوچکی ہوں اس لیے میں اوپر مذکور پراپرٹی اپنے بچوں کے نام کرنا چاہتی ہوں، یعنی تہہ خانہ اور گراؤنڈ فلوراپنے بڑے لڑکے کے نام اور فرسٹ اور سکنڈ فلور اپنے دوسرے لڑکے کے نام کرنا چاہتی ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اوپر مذکور پراپرٹی اپنے دونوں لڑکوں کو بطور تحفہ کے یا وصیت کے طور پر دے سکتی ہوں؟ برائے کرم جواب عنایت فرماویں۔

    سوال:

    میں ایک ریٹائرڈ ٹیچر ہوں۔ میرے ایک شوہر دو لڑکے اور ایک لڑکی ہے۔ میرے تمام بچے شادی شدہ ہیں۔ میں نے 19x33 فٹ ایریا کا ایک مکان تعمیر کیا ہے جس میں تہہ خانہ ، گراؤنڈ فلور، فرسٹ فلور، اور سکنڈ فلورہیں۔ میں نے اوپر مذکور پلاٹ کو اپنی تنخواہ سے خریدا تھا۔ اس کی تعمیر میں تقریباً میں نے ستر فیصد خرچ کیا ہے جب کہ باقی میرے بڑے لڑکے نے دیا ہے۔ اب پراپرٹی میرے نام پر ہے۔ جب کہ میں بوڑھی ہوچکی ہوں اس لیے میں اوپر مذکور پراپرٹی اپنے بچوں کے نام کرنا چاہتی ہوں، یعنی تہہ خانہ اور گراؤنڈ فلوراپنے بڑے لڑکے کے نام اور فرسٹ اور سکنڈ فلور اپنے دوسرے لڑکے کے نام کرنا چاہتی ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اوپر مذکور پراپرٹی اپنے دونوں لڑکوں کو بطور تحفہ کے یا وصیت کے طور پر دے سکتی ہوں؟ برائے کرم جواب عنایت فرماویں۔

    جواب نمبر: 11565

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 472=391/د

     

    وصیت کرنا مفید نہ ہوگا، کیونکہ آپ کے لڑکے اور بیٹی آپ کی وارث ہیں، اور وارث کے حق میں وصیت شرعاً معتبر نہیں ہوتی بلکہ کالعدم ہوجاتی ہے، اور بعد انتقال آپ کے ورثا کو بقدر حصہ شرعی ترکہ تقسیم ہوگا۔ ہاں اگر آپ زندگی میں سب کو برابر تقسیم کرکے دیدیں اور اپنے اپنے حصہ پر ہرایک کو قبضہ تامہ دے کر خود لاتعلق ہوجائیں تو ایسا کرسکتی ہیں، لیکن اس صورت میں دونوں لڑکوں اور ایک بیٹی تینوں کو برابر برابر دینا مستحب ہے، البتہ جس بیٹے نے تعمیر میں رقم لگائی ہے اسے زیادہ دینے کی بھی گنجائش ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند