معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 1016
اگر بیٹا والد کی زندگی میں فوت ہو جائے تو کیا اس کی اولاد کا دادا کی وراثت میں کوئی حصہ ہے؟ بیٹے کی جائداد میں والدین کا کیا حصہ ہے؟
اگر بیٹا والد کی زندگی میں فوت ہو جائے تو کیا اس کی اولاد کا دادا کی وراثت میں کوئی حصہ ہے؟
جواب نمبر: 101601-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوى: 405/م = 408/م)
اگر والد کی وفات کے وقت ان کا کوئی بھی بیٹا موجود ہے تو پوتے، پوتیوں کا مرحوم دادا کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں: کما في السراجیة: ویسقطن بالابن
اور میت بیٹے کی جائداد میں والدین کا حصہ احوال کے اختلاف سے مختلف ہوتا ہے مثلاً فوت شدہ بیٹے کا کوئی بیٹا بھی موجود ہے اور والدین بھی تو والدین میں سے ہرایک کو سدس (چھٹا حصہ) ملے گا، اس طرح ماں باپ میں سے ہر ایک کے تین تین احوال ہیں جو فرائض کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ دیکھئے سراجی وغیرہ
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
اپنی
کمائی سے والدہ کے لیے گھر بنایا، کیا وہ مالک ہوگئیں؟
میرے
والدین ایک وصیت کرکے انتقال کرگئے۔ ایک مکان جس کو میرے والدیننے تعمیر کیا
تھا،جس میں میں 1982سے رہائش پذیر ہوں۔ ہم کل چارفرد ہیں دو بھائی اور دو بہن۔
دونوں بہنیں مجھ سے بڑی ہیں، میں تیسرے نمبر پر ہوں اورمجھ سے چھوٹا ایک بھائی ہے۔
برائے کرم مجھ کو بتائیں کہ مکان کو شریعت کی روشنی میں کیسے تقسیم کریں گے جو کہ
دو سواسکوائر یارڈ میں تعمیر کیا گیا ہے؟
تین بھائی اور ایک بہن کے درمیان 32000 کی رقم کو کیسے تقسیم کریں؟
یہ سوال وراثت کے متعلق ہے۔ ہم تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ الحمد للہ والدین زندہ ہیں۔ اللہ انھیں لمبی عمر دے (آمین)۔ والد صاحب کا ایک کمرہ ہے۔ ان کو فنڈ بھی ملا ہے اورانھیں ہر ماہ پینشن بھی مل رہی ہے۔ (جس کو وہ لوگ (والد صاحب اور ہمارا ایک چھوٹا بھائی)اپنے اوپر خرچ کرتے ہیں یعنی ہمارا چھوٹابھائی والد صاحب کے ساتھ رہتا ہے)۔ ماں کے پاس ایک کمرہ ہے جوکہ ان کو ان کے والدین سے ملا ہے۔ دونوں بہنوں کی شادی ہوچکی ہے۔ میں اسلامی قانون کے مطابق جائیداد کی تقسیم اور والد صاحب کے فنڈ/پینشن کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ فنڈ اور پینشن کے ساتھ وہ ایک بھائی کے ساتھ لطف اندوز ہورہے ہیں، جب کہ دوسرے لوگ اس فنڈ سے کوئی پیسہ نہیں پارہے ہیں۔ میرے خیال میں آپ کے جواب کے لیے اتنا کافی ہے۔ اگر آپ کو زیادہ تفصیل کی ضرورت ہو تو مجھے ای میل کرکے معلوم کرلیں۔
1618 مناظرہمارے
پڑوس میں ایک عورت رہتی ہے جس کا اپنا ایک گھر ہے اور اس کے تین بیٹے اور دو
بیٹیاں ہیں۔ وہ اپنا گھر اپنے ایک بیٹے کے نام کرنا چاہتی ہے جب کہ سب اولاد راضی
ہیں مگر سب سے بڑا بیٹا راضی نہیں ہے۔ کیا اسلام مجھے اجازت دیتا ہے کہ میں گواہ
بن کر کاغذاب پر دستخط کروں؟ کیا یہ گناہ ہے؟ میں پریشانی میں ہوں جلد جواب دے کر
احسان کیجئے۔
میرا سوال ہبہ کے تعلق سے ہے۔ کیا شریعت نے خود کی اولاد کواپنی زندگی ہی میں حصہ کی اجازت دی ہے، جب کہ ایک شخص کی جملہ دس اولادیں ہیں، چھ لڑکیاں اور چار لڑکے۔ یہ دس بچے دو بیویوں سے ہیں۔ پہلی بیوی سے آٹھ بچے ہیں جن میں چھ لڑکیاں اور دو لڑکے شامل ہیں جب کہ دوسری بیوی سے دو لڑکے ہیں۔ پہلی بیوی کے بچے دوسری بیوی کے بچوں سے املاک کی تقسیم کے تعلق سے بہت ہی ناروا سلوک کرتے ہے۔ اس شخص کے انتقال کو سولہ سال ہوچکے ہیں ،لیکن ابھی تک جائیداد کی تقسیم نہیں ہوئی۔ پہلی بیوی جس کا انتقال ابھی تین سال پہلے ہوا اور یہ بیوی ایک طرح سے مختار کل تھی اوراس کی مرضی کی وجہ سے ہی جائیداد کی تقسیم نہیں ہوسکی۔ جملہ جائیداد میں دو فلیٹ اور کاروبار ہیں۔ پہلی بیوی کے دو لڑکوں میں سے چھوٹے لڑکے کو ہبہ کے ذریعہ ایک فلیٹ اور کاروبار دئے جانے کی بات کی جاتی ہے او رقانونی اعتبار سے ایک فلیٹ اورکاروبار پہلی بیوی کے چھوٹے لڑکے نے اپنے نام کرلیا ہے اوراس کام کو بھی بہت عرصہ گزر چکا ہے۔ چھوٹا بیٹا کاروبار میں سے اپنی خود کی ماں کو باپ کے انتقال کے بعد اخراجات کے لیے اچھی رقم دے دیا کرتا تھا اوردوسری بیوی کے ایک لڑکے کو ایک وقت تک قلیل رقم ہر مہینہ دیتا تھا۔ لیکن جب سے اس نے خود کے لڑکے کی شادی کی اس وقت سے اس نے اپنے چھوٹے بھائی کوجو کہ اپنی ماں کے ساتھ الگ رہتا تھا ایک طرح سے رقم دینا بند کردیا۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا کوئی شخص اپنے دس بچوں کی موجودگی میں کسی ایک بچے کو ہبہ کے ذریعہ جائیداد کا اچھا خاصا حصہ دے سکتا ہے؟ کیا شریعت نے اسے ایسا کرنے کی اجازت دی ہے؟ ہبہ کے ذریعہ جس کو پہلی بیوی کے چھوٹے بیٹے کے نام کرنے کی جو بات کی جاتی ہے وہ اصل جائیداد کا بڑا حصہ ہے۔ برائے مہربانی ہبہ کے بارے میں شریعت کے احکام اسسوال کی روشنی میں تفصیلی طور پر بتائیں۔
3632 مناظر