• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 24224

    عنوان: چچا ابو طالب کے ایمان کے بارے میں کیا عقیدہ ہونا چاہیے؟

    سوال: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے ایمان کے بارے میں ہمارا کیا عقیدہ ہے؟ اور کیا ان کے نام کے ساتھ حضرت، سیدنا، رحمتہ اللہ علیہ یا رضی اللہ تعالی عنہ کے الفاظ یا ان میں سے کوئی لفظ لگایا جاسکتاہے یا نہیں؟اسی طر ح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے بارے میں ہمار ا کیا عقیدہ ہے؟

    جواب نمبر: 24224

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 1176=244-8/1431

     

    چچا ابوطالب کا ایمان لانا ثابت نہیں، لہٰذا رحمة اللہ علیہ یا رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کہ مخصوص ہے مومنین کے لیے‏، کہنا جائز نہیں۔ وقت وفات جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر ایمان کا کلمہ پیش کیا تو انھوں نے انکار کردیا جیسا کہ مسلم شریف میں کتاب الایمان کی روایت سے ظاہر ہے، نیز اِنَّکَ لاَ تَہْدِيْ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ آیت کا شان نزول ابوطالب ہیں، جس سے ان کا عدم ایمان ثابت ہے۔ قال في فتح الملہم في الحدیث المشار إلیہ سابقًا تحت قولہ اِنَّکَ لاَ تَہْدِيْ مَنْ أَحْبَبْتَ الآیة قال الشارح قد اجمع المفسرون علی أنہا نزلت في أبي طالب قال الحافظ وہذا کلمہ ظاہر في أنہ مات علی غیر الإسلام (مسلم شریف مع فتح الملہم: ۱/۱۹۷) عن أبي ہریرة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعمّہ عند الموت قل لا إلہ إلا اللہ أشہد لک بہا یوم القیامة فأبی قال فأنزل اللہ اِنَّکَ لاَ تَہْدِيْ مَنْ أَحْبَبْتَ الآیة۔

    (۲) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے ایمان کے بارے میں علمائے کا اختلاف ہے، تحقیقی بات یہ ہے کہ اس طرح کے امور میں توقف کرنا چاہیے کیونکہ یہ عقائد میں داخل نہیں ہیں، نہ دین وایمان کا جز ہیں، ضروریات دین کو جاننے سمجھنے عمل کرنے کی زیادہ ضرورت ہے، ایسے امور میں لب کشائی کرنا لائق نہیں کہ اگر فی الحقیقة مومن ہوئے تو کافر کہنا خطا ہوگا اور اگر کافر ہوئے تو مومن کہنا غلط ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا․


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند