• متفرقات >> تاریخ و سوانح

    سوال نمبر: 162616

    عنوان: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت اور یوم وفات ایک ہی دن ہے اور عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کا حکم

    سوال: میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی یوم ولادت اور یوم وفات ایک ہی دن ہے ؟ اگر نہیں تو یوم ولادت اور یوم وفات کیا ہے ؟ اور اگر ۱۲ ربیع الاول کو یوم ولادت نہیں ہے تو اس دن کس وجوہات کی بنا پر اور کیوں یوم ولادت منائی جاتی ہے ؟

    جواب نمبر: 162616

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1129-129T/N=11/1439

    (۱، ۲): جمہور محدثین ،موٴرخین اور علمائے کرام کے نزدیک راجح ومختار یہ ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ ۸یا ۹/ ربیع الاول کو ہوئی۔اور ۱۲/ ربیع الاول کا قول محض مشہور ہے، راجح اور مختار نہیں ہے۔ (دیکھئے: سیرت المصطفی، قصص القرآن، رحمة للعالمین اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم، وغیرہ)۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات شریفہ کی تاریخ میں بھی اختلاف ہے، مشہور تو یہی ہے کہ ۱۲/ ربیع الاول کو وفات ہوئی ہے؛ لیکن یہ قول صحیح نہیں؛ اس لیے بعض حضرات نے یکم ربیع الاول کو تاریخ وفات قرار دی اور بعض نے ۲/ ربیع الاول کو۔ اور علامہ سہیلیؒ اور حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے ۲/ ربیع الاول کے قول کو راجح قرار دیا ہے (دیکھئے: فتح الباری اور سیرت المصطفی وغیرہ)۔

    (۳):۱۲/ ربیع الاول کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کا دن سمجھ کر عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) منانا مذہب اسلام میں بالکل بے اصل، ناجائز اور بدعت ہے ،تمام مسلمانوں پر اس سے اجتناب ضروری ہے، کیوں کہ:

    الف:۱۲/ ربیع الاول کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت ہونا محض مشہور ہے ،ورنہ تاریخی طور پر یہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ اوپر لکھا گیا۔

    ب:حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور نبی یا ولی وغیرہ کا یوم ولادت منانا کوئی اسلامی چیز نہیں ہے، یہ عیسائیوں کا طریقہ ہے،وہ حضرت عیسی علیہ السلام کا یوم ولادت کرسمس ڈے کے نام سے مناتے ہیں ،اور ہم مسلمانوں کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیروں کی مشابہت سے منع فرمایاہے۔

    عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم (سنن أبي داود، کتاب اللباس، باب في لبس الشہرة، ۲:۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱،ط: دار الفکر بیروت، مشکاة المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني،ص:۳۷۵ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    ج:عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) مذہب اسلام میں امر محدث ہے، کیوں کہ صحابہ کرامؓ، تابعین عظامؒ، تبع تابعینؒ اور ائمہ اربعہؒ وغیرہم میں سے کسی سے اس کا کچھ ثبوت نہیں ہے، یہ چیز بہت بعد کی ایجاد ہے، حدیث میں ہے: من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد(صحیح بخاری وصحیح مسلم، بہ حوالہ: مشکوة شریف، ص ۲۷، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)، نیز شریعت اسلام میں اعمال کا حسن وقبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق پر منحصر ہے،جس عمل کو آپ نے اچھا فرمایا وہ اچھا ہے، اورجس کو برا فرمایا وہ برا ہے، عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا یا کیا ،نہ ہی اس عمل کو صحابہ کرامؓ نے کیا، نہ تابعینؒ وتبع تابعینؒ نے کیا، نہ ائمہ اربعہؒ نے کیا، نہ ہمارے بزرگوں نے کیا، حالانکہ یہ سب لوگ ہم سے کہیں زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت ومحبت رکھتے تھے؛ اس لیے ہم مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) منانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔

    د: بعض جگہوں پر عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر مختلف قسم کی رسومات بھی انجام دی جاتی ہیں ،مثلاً :نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں، مختلف قسم کے کھانے پکائے جاتے ہیں ،اجتماعی ایصال ثواب کی مجالس منعقد کی جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور بعض علاقوں میں عظیم میلہ کی شکل میں پورے یا اکثر شہر میں جلوس نکالا جاتا ہے ، جس میں بے شمار منکرات وخرافات پائی جاتی ہیں اورصحیح اسلامی تعلیمات سے ناواقف نئی نسل انہی سب چیزوں کو دین سمجھ کر ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے ، اور جلوس میں مسلم عوام کا بے تحاشہ پیسہ ضائع کیا جاتا ہے اور بعض علاقوں میں مختلف جگہوں پر بڑے بڑے گیٹ بھی بنائے اور سجائے جاتے ہیں ، جن میں ہزاروں ؛ بلکہ لاکھوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں ۔اور ایسے میلے ٹھیلے میں مردوں کے ساتھ بے پردہ عورتوں کا بھی ایک عظیم مجمع ہوتا ہے اوریہ سب اسلام کے نام پر کیا جاتا ہے۔

    خلاصہ یہ کہ ۱۲/ ربیع الاول کو عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) منانا بالکل بے اصل وبے بنیاد ہے، شریعت سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، نیزاس میں عملی اور اعتقادی منکرات وخرافات بھی پائی جاتی ہیں؛ اس لیے عید میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) منانا ہرگز جائز نہیں؛ بلکہ بدعت ہے، اس سے اجتباب لازم وضروری ہے،المدخل (۲:۳) میں ہے:

     ومن جملة ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وإظہار الشعائر، ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدعٍ ومحرمات جمة۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند