متفرقات >> تاریخ و سوانح
سوال نمبر: 156986
جواب نمبر: 156986
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:307-326/N=4/1439
یہ سوال آپ کو مولانا طارق جمیل صاحب سے کرنا چاہیے تھا، پھر بھی جب آپ نے دار الافتا سے رجوع کیا ہے تو عرض ہے کہ
مولانا طارق جمیل صاحب نے جو بات کہی ہے، وہ سلف میں بعض علما کی بھی رائے ہے، اور علامہ زرقانینے تو شرح مواہب میں اس کے متعدد شواہد بھی نقل کیے ہیں اور قرآن کریم میں جوچچا پر اب کا اطلاق کیا گیا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ چچا کو باپ کہنا عربی محاورات میں عام ہے، اسی محاورہ کے تحت قرآن کریم میں آزر کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ فرمایا گیا ہے(معارف القرآن، ۳: ۳۷۹، تفسیر سورہ انعام ، آیت: ۷۴)۔
اور بعض کتابوں میں ہے: چوں کہ آزر نے ان کی تربیت کی تھی اور بہ منزلہ اولاد کے پالا تھا ؛ اس لیے قرآن عزیز میں آزر کو باپ کہہ کر پکارا گیا (قصص القرآن، ۱: ۱۲۰)؛
لیکن حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہارویآزر کے متعلق مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
ہمارے نزدیک یہ تمام تکلفات باردہ ہیں؛ اس لیے کہ قرآن عزیز نے جب صراحت کے ساتھ آزر کو اب ابراہیم (ابراہیم علیہ السلام کا باپ) کہا ہے تو پھر علمائے انساب اور بائبل کے تخمینی قیاسات سے متاثر ہوکر قرآن عزیز کی یقینی تعبیر کو مجاز کہنے یا اس سے بھی آگے بڑھ کر خواہ مخواہ قرآن عزیز میں نحوی مقدرات ماننے پر کونسی شرعی اور حقیقی ضرورت مجبور کرتی ہے الخ پس بلا شبہ تاریخ کا تارخ (جو سب کے نزدیک بلا شبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام ہے) آزر ہی ہے اور علم اسمی ہے(قصص القرآن، ۱: ۱۲۰، ۱۲۱)۔
پس صحیح یہ ہے کہ قرآن میں جس کو آزر کہا گیا ہے، وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد ہی ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا یا کوئی اور نہیں ہیں۔ اور یہ دعوی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء میں کوئی کافر نہیں گذرا، دلائل کی روشنی میں محل نظر ہے(تفصیل کے لیے قسطلانی کی مواہب اور زرقانی کی شر ح مواہب (۱: ۳۲۶- ۳۵۲، مطبوعہ: دار الکتب العلمیة بیروت)ملاحظہ کی جائے )۔۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند