• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 6544

    عنوان:

    میں ایک ٹیکس مشیر ہوں۔ ہمارا کام لوگوں کو ٹیکس کی بچت کے طریقے اورراستے بتانا ہوتاہے۔ (۲) اس کے علاوہ ہم لوگوں کو جو ٹیکس شمار کراتے ہیں وہ بھی سارا کا سارا اندازے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ (۳) تیسرے نمبر پر ہم بزنس مین لوگوں کو کاروباری قرضے کے حصول کے لیے بیلنس شیٹ بناکر دیتے ہیں، جو کہ پچاس فیصد جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ مہربانی فرماکر ان مسائل کے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب ارشاد فرمائیں کہ کیا یہ مندرجہ بالا کام جائز ہے یا نہیں؟

    سوال:

    (۱) میں ایک ٹیکس مشیر ہوں۔ ہمارا کام لوگوں کو ٹیکس کی بچت کے طریقے اورراستے بتانا ہوتا ہے۔

    (۲) اس کے علاوہ ہم لوگوں کو جو ٹیکس شمار کراتے ہیں وہ بھی سارا کا سارا اندازے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

    (۳) تیسرے نمبر پر ہم بزنس مین لوگوں کو کاروباری قرضے کے حصول کے لیے بیلنس شیٹ بناکر دیتے ہیں، جو کہ پچاس فیصد جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ مہربانی فرماکر ان مسائل کے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب ارشاد فرمائیں کہ کیا یہ مندرجہ بالا کام جائز ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 6544

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1154=1094/ د

     

    (۱) ٹیکس بچت کے طریقے قانونی دائرے میں ہیں اور ان طریقوں میں سے کسی شرعاًناجائز امر کا ارتکاب نہیں کرنا ہوتا تو آپ کا مشورہ دینا درست ہے۔

    (۲) اگر آپ کا اندازہ حقیقت کے قریب قریب ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

    (۳) اولاً قرضوں کا حصول سودی طور پر ہوگا جو کہ فی نفسہ ناجائز ہے، پھر پیش کی گئی بیلنس شیٹ بھی جھوٹ پر مبنی ہے، جس کا گناہ الگ ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند