• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 172797

    عنوان: نقد اور ادھار ریٹ میں فرق

    سوال: جناب ہمارالوہے کاروبار ہے ہم اپنی ضرورت کے مطابق لوہا لاتے ہیں اور سامان بناتے اور بیچتے ہیں۔ہمیں یہ جاننا ہے کہ جب ہم لوہے کی خریداری کے لئے بازار جاتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ نقد ادائیگی کے لئے یہ سامان 10 / - روپے ہے ، اور 15 دن کے لئے پیسہ 12 / - روپے ہے۔ 1 مہینے میں دینے پر یہ 13 / - روپے ہے۔سوال یہ ہے کہ اس طرح کام کرنا جائز ہے؟براہ کرم، اس پر تھوڑی روشنی ڈالیں۔

    جواب نمبر: 172797

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:20-4/L=1/1441

    اگر سامان خریدتے وقت ہی مجلسِ عقدمیں وقت اور ثمن کی تعیین ہوجائے مثلاً: میں یہ سامان پندرہ دن کے ادھار پر /۱۲روپے یا مہینے دن کے ادھار پر /۱۳روپے میں خریدتا ہوں (گو وہ ریٹ نقد کے مقابلے کچھ زائد ہو) تو اس طور پر خرید وفروخت میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

    (المادة 245) البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح.(المادة 246) یلزم أن تکون المدة معلومة فی البیع بالتأجیل والتقسیط.[مجلة الأحکام العدلیة ص: 50،الناشر: نور محمد، کارخانہ تجارتِ کتب، آرام باغ، کراتشی) وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا أو قال إلی شہر بکذا أو إلی شہرین بکذا فہو فاسد؛ لأنہ لم یعاطہ علی ثمن معلوم ولنہی النبی - صلی اللہ علیہ وسلم - عن شرطین فی بیع وہذا ہو تفسیر الشرطین فی بیع ومطلق النہی یوجب الفساد فی العقود الشرعیة وہذا إذا افترقا علی ہذا فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا حتی قاطعہ علی ثمن معلوم، وأتما العقد علیہ فہو جائز؛ لأنہما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد(المبسوط للسرخسی 13/ 8، الناشر: دار المعرفة - بیروت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند