• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 172473

    عنوان: کسی محکمے میں ملازمت کے لیے سفارش کرانا درست ہے یا نہیں؟

    سوال: سوال یہ ہے کہ کسی محکمے میں ملازمت کے لیے سفارش کرانا جائز ہے کہ نہیں؟ مثلاً بغیر رشوت دیے کسی جاننے والے سے سفارش کراکے ملازمت حاصل کرنا شرعاً کیسا ہے؟ 2 اگر کوئی شخص کسی عہدے کے لیے اہل بھی نہ ہو اور وہ سفارش کراکے کوئی سرکاری نوکری حاصل کرتاہے تو کیا وہ جائز ہوگی؟ برائے مہربانی تفصیلی جواب تحریر کریں۔

    جواب نمبر: 172473

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1430-189T/L=01/1441

    (۱، ۲) اگر کوئی شخص ملازمت کا اہل ہو لیکن بغیر سفارش کے ملازمت کا ملنا دشوار ہو ایسے شخص کا کسی سے ملازمت ملنے کی سفارش کرنا اور اس دوسرے شخص کا سفارش کرنا جائز ہے؛ بلکہ بسااوقات مستحب ہے، حدیث شریف میں سفارش کرنے پر اجر کی بشارت آئی ہے؛ البتہ اگر کوئی شخص کسی عہدہ یا ملازمت کا اہل نہ ہو اس کے لئے نہ تو سفارش کرانا جائز ہے اور نہ ہی کسی شخص کے لئے اس کے حق میں سفارش کرنا جائز ہے۔

    قال تعالی: مَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَکُنْ لَہُ نَصِیْبٌ مِنْہَا وَمَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَکُنْ لَہُ کِفْلٌ مِنْہَا وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ مُقِیْتًا ( سورة النساء:85) (مَنْ یّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً) ہي الشفاعة فی دفع شر أو جلب نفع مع جوازہا شرعا (مدارک التنزیل وحقائق التأویل ۱/۳۸۰، الناشر: دار الکلم الطیب، بیروت) حدثنا أبو بردة بن أبي موسی، عن أبیہ رضي اللہ عنہ قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا جاء ہ السائل أو طلبت إلیہ حاجة قال: ”اشفعوا توٴجروا ، ویقضي اللہ علی لسان نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم ما شاء“ (صحیح البخاري: رقم الحدیث: ۱۴۳۲) وقد تکون الشفاعة غیر جائزة ، وذلک فیما کان سعیا في إثم أو في إسقاط حد بعد وجوبہ ، فیکون حینئذ شفاعة سیئة ۔ (أحکام القرآن لابن العربي ۱/۵۸۷، الناشر: دار الکتب العلمیة ، بیروت - لبنان) وفي الموسوعة الفقہیة الکویتیة: الشفاعة السئة ہي: أن یشفع في إسقاط حد بعد بلوغہ السلطان أو ہضم حق أو إعطائہ لغیر مستحقہ ، وہو منہي عنہ لأنہ تعاون علی الإثم والعدوان ۔ قال تعالی: ”ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان“ (الموسوعة الفقہیة الکویتیة ۲۶/۱۳۲، صادر عن: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامیة - الکویت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند