• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 171765

    عنوان: افسران كو رشوت دینے كے نام پر رقم وصول كرنا؟

    سوال: آج کل یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ حکومتی اداروں کے افسران بہت رشوت خور ھو گئے ہیں مگر ڈرتے ہیں کہ کہیں پکڑے نہ جائیں، اس لیے کوئی بچولییا mediator کے ذریعے وہ رشوت حاصل کرتے ہیں تاکہ اپنے رشوت کا پیسہ بھی ملے اور پکڑے جانے کا ڈر بھی نہ ہو، بچولییا کسی ضرورت مند کا کام حکومتی ادارے سے کروانے کے لیے اپنی اجرت کے نام پر کچھ لاین کا فارم بھر کر بھاری بھر کم رقم ضرورت مند سے یہ کہہ کر لیتا ہے کہ ہمیں کام کروانے کے لیے ادارے کے افسران کو رشوت دینی پڑھتی ہے. بیچارا ضرورت مند جانتا ہے کہ بچولییے کی اجرت چند سکوں کی ہے مگر بھاری رقم افسران کی رشوت دینے کے لئے ہے. بچولییا افسران کے نام پر افسران کی طے شدہ رقم سے زائد رقم ضرورت مند سے لیتا ہے اور کچھ حصہ افسران کو دیکر کچھ حصہ اپنی جیب میں ڈالتا ہے. اگر یہ بچولییا مسلمان ھو تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 188 میں فرماتا ہے کہ "اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نا کھاو اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاو کے لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھاو جان بوجھ کر" (ترجمہ کنزل ایمان) اب یہ مسلمان بچولییا اسطرح سے اگر اپنی معاش حاصل کرتا ہے تو کیا یہ جائز ہے؟ برائے مہربانی بتائیں۔

    جواب نمبر: 171765

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1117-984/D=11/1440

    رشوت کا لینا دینا حرام ہے اور رشوت کا معاملہ طے کرانے کے لئے بچولیا کا کام انجام دینا بھی حرام ہے۔

    ضرورت مند جس کا کام اٹکا ہوا ہے اور حق مارا جارہا ہے اپنا حق حاصل کرنے کے لئے رشوت دے سکتا ہے لیکن بچولیا کی کوئی ضرورت اٹکی نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کے لئے رشوت کا معاملہ طے کرانا جائز ہوسکے۔ پس اس کا عمل ہی ناجائز ہے لہٰذا آمدنی بھی ناجائز ہوگی۔

    پھر افسران کو دینے کے نام پر زاید رقم وصول کرنا دھوکہ اور جھوٹ ہے جس کا گناہ کبیرہ ہونا ظاہر ہے اور آمدنی بھی ناجائز ہے۔

    ہاں کسی جائز کام کے مکمل کرانے کی اجرت بچولیا طے کرکے لیتا ہے تو اس کا یہ اجرت لینا جائز ہے بشرطیکہ اس میں کسی قسم کا جھوٹ دھوکہ وغیرہ نہ ہو۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند