• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 169704

    عنوان: ہیلتھ انشورنس کمپنی میں ملازمت کرنے والے کا ہدیہ یا دعوت قبول کرنے کا حکم

    سوال: میرے ایک دوست ہیں جو ہیلتھ انشورنس کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں، کبھی کبھی وہ ہمارے گھر پر کھانے پینے کے سامان بھیجتے رہتے ہیں تو ایسی صورت میں ہم کو کیا کرنا چاہیے ؟ شریعت کی روشنی میں بتائیں مہربانی ہوگی۔

    جواب نمبر: 169704

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:702-636/N=8/1440

    آپ کے دوست کسی ہیلتھ انشورنس کمپنی میں کس کام کی ملازمت کرتے ہیں؟ یعنی: کمپنی میں ان کے ذمہ کیا کام ہیں؟ اگر ان کے ذمہ ہیلتھ انشورنس کمپنی میں براہ راست انشورنس سے متعلق کوئی کام ہے تو ان کی ملازمت اور آمدنی ناجائز ہے۔ اور اگر ان کا ذریعہ آمدنی یہی ہے یا ان کے پاس اکثر آمدنی اسی کی ہے تو آپ نہ ان کا ہدیہ قبول کیا کریں اور نہ دعوت؛ کیوں کہ جس کی کل یا اکثر آمدنی ناجائز ہو، اس کا ہدیہ لینا یا دعوت قبول کرنا جائز نہیں ہوتا؛ البتہ کچھ جائز آمدنی کی صورت میں اگر وہ صراحت کرکے جائز آمدنی سے کوئی ہدیہ دے یا دعوت کرے تو وہ ہدیہ یا دعوت قبول کرنے کی گنجائش ہوگی ۔

    قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)،یٰأیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون( المائدة، ۹۰)،عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)،وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:إن اللہ حرم علی أمتي الخمر والمیسر(المسند للإمام أحمد،۲: ۳۵۱، رقم الحدیث: ۶۵۱۱)،﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة(معالم التنزیل ۲: ۵۰)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخری، وسمی القمار قمارًا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وہو حرام بالنص(رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة،باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹: ۵۷۷)۔

    أھدی إلی رجل شیئا أو أضافہ إن کان غالب مالہ من الحلال فلا بأس إلا أن یعلم بأنہ حرام، فإن کان الغالب ھو الحرام ینبغي أن لا یقبل الھدیة ولا یأکل الطعام إلا أن یخبرہ بأنہ حلال ورثتہ أو استقرضتہ من رجل کذا فی الینابیع، ولا یجوز قبول ھدیة أمراء الجور؛لأن الغالب في مالھم الحرمة إلا إذا علم أن أکثر مالہ حلال بأن کان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس بہ ؛لأن أموال الناس لا تخلو عن قلیل حرام فالمعتبر الغالب، وکذا أکل طعامھم کذا فی الاختیار شرح المختار (۴:۱۸۷ط دار الکتب العلمیة بیروت)(الفتاوی الھندیة، کتاب الکراھیة، الباب الثاني عشر فی الھدایا والضیافات، ۵:۳۴۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة۔ بولاق، مصر) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند