• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 169699

    عنوان: رشتہ طے کراکے اجرت لینا کیسا ہے؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں آج کل بڑے بڑے شہروں میں مثلا ممبئی ،پونہ ،ناسک وغیرہ میں انسانی زندگی بڑی مصروفیت کے ساتھ گذر رہی ہے حتی کہ خاندانی رشتوں میں بھی ملاقات و روابط بہت کم ہوگئے ہیں جس کی بناء پر لڑکے اور لڑکیوں کے رشتہ ڈھونڈنے میں بہت پریشانی ہوتی ہے اسی لئے زید ایک ایجنڈ اور دلال کی حیثیت سے لڑکے اور لڑکیوں کے رشتہ لگوانے کا کام کرتا ہے اگر لڑکا اور لڑکی اور ان کے خاندان والوں نے آپس میں ایک دوسرے کو پسند کرلیا اور آپس میں ان کا رشتہ طے ہوگیا تو فریقین سے پانچ پانچ ہزار روپیہ لیتا ہے اور اگر آپس میں ایک دوسرے کو دیکھ لینے کے بعد رشتہ طے نہیں ہوا تو تب بھی زید فریقین سے دو دو ہزار روپیہ لیتا ہے کیوں کہ فریقین سے بات کرنے اور آپس میں ایک دوسرے کو ملانے کیلئے زید کو اتنا وقت لگا ہے تو کیا زید کا رشتہ لگوانے کیلئے دلالی مع اجرت کے جائز ہے ؟ رشتہ طے ہونے کی صورت میں زید کا فریقین سے رقم بطور اجرت کے لینا جائز ہے ؟ رشتہ طے نہ ہونے کی صورت میں زید کا فریقین سے رقم بطور محنت کے لینا جائز ہے ؟ براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب تحریر فرمائے بینوا توجروا۔

    جواب نمبر: 169699

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:755-130t/sd=8/1440

    اگر زید دونوں فریقوں کو آپس میں ملانے اور ان کے درمیان معاملہ کرانے کے لئے دوڑ دھوپ کرتا ہے تو شرعا اس کے لئے رشتہ طے کراکے پہلے سے متعین کردہ اجرت لینا شرعا جائز ہے بہ شرطے کہ کسی طرح کی غلط بیانی اوردھوکہ دہی سے کام نہ لے، اسی طرح رشتہ طے نہ ہو نے کی صورت میں ہر فریق سے پہلے سے طے کرکے دو ہزار روپیے وصول کرنے کی بھی صورت مسئولہ میں گنجائش ہے۔

    قال فی التتارخانیة: وفی الدلال والسمساریجب أجرالمثل، وما تواضعوا علیہ أن فی کل عشرة دنانیرکذا فذاک حرام علیہم. وفی الحاوی: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجوأنہ لابأس بہ وإن کان فی الأصل فاسدا لکثرة التعامل وکثیر من ہذا غیر جائز، فجوزوہ لحاجة الناس إلیہ کدخول الحمام وعنہ قال: رأیت ابن شجاع یقاطع نساجا ینسج لہ ثیابا فی کل سنة.(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین . (رد المحتار)9/87،ط:زکریا) نیز دیکھیں : امداد الفتاوی 3/393 ،ط: کراچی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند