متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 168426
جواب نمبر: 168426
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:530-468/N=6/1440
پوب جی(PUBG) گیم یہودیوں کا ایجاد کردہ ہے اور اس میں مختلف شرعی مفاسد پائے جاتے ہیں، جن میں چند حسب ذیل ہیں:
(۱): یہ گیم محض لا یعنی ہے، اس میں وقت، صحت اور دماغی قوت وطاقت کی بربادی کے علاوہ کوئی قابل ذکر دینی یا دنیوی فائدہ نہیں ہے۔ اور اسلام اس طرح کی لایعنی وبے فائدہ ؛ بلکہ وقت وغیرہ برباد کرنے والی چیزوں کی اجازت نہیں دیتا۔
(۲): جو شخص اس گیم میں لگتا ہے، وہ اس کا ایسا رسیہ اور عادی ہوجاتا ہے کہ اُسے نماز وغیرہ کیا؟ بہت سے دنیوی ضروری کاموں کا بھی ہوش نہیں رہتا۔ اور اسلام میں اس طرح کا کوئی کھیل جائز نہیں اگرچہ اس میں بے شمار ظاہری فوائد ہوں۔
(۳): جو لوگ اس گیم کو بار بار کھیلتے ہیں، ان کا ذہن منفی ہونے لگتا ہے اور گیم کی طرح وہ واقعی دنیا میں بھی ماردھاڑ وغیرہ کے کام سوچتے ہیں، جس کی وجہ سے مختلف حادثات اور واقعات کا خطرہ رہتا ہے ؛ بلکہ بعض مرتبہ خطرہ حقیقت بھی بن جاتا ہے (جیسا کہ واقعات شاہد ہیں)۔
(۴): اس گیم میں کارٹون کی شکل میں تصاویر پائی جاتی ہیں اور اسلام میں جان دار کی تصویر ناجائز ہے۔
(۵): یہ گیم موبائل یا کمپیوٹر پر نیٹ کنکشن کے ساتھ ہی کھیلا جاسکتا ہے، اس کے بغیر نہیں اور بعض اصحاب نظر کی رائے یہ ہے کہ یہودی لابی، اس گیم کے ذریعہ لوگوں (بالخصوص مسلمانوں)کا پرسنل ڈاٹا محفوظ کرنا چاہتی ہے؛ تاکہ بچے کھچے چند مسلمانوں میں جو کچھ عفت وپاک دامنی وغیرہ باقی رہ گئی ہے ، اسے تارتار کردیا جائے اور پوری دنیا کو شیطانی جال کا شکار بنادیا جائے۔
اس لیے شریعت اسلامیہ کی رو سے پوب جی گیم کھیلنا ہرگز جائز نہیں ہے، لوگوں کو اس طرح کی چیزوں سے بہت زیادہ دور رہنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی حفاظت فرمائیں۔
وکرہ تحریما اللعب بالنرد وکذا الشطرنج… وھذا إذا لم یقامر لم یداوم ولم یخل بواجب وإلا فحرام بالإجماع (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فی البیع وغیرہ، ۹:۵۶۴،۵۶۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
قولہ: ” الشطرنج “:معرب شدرنج، وإنما کرہ لأن من اشتغل بہ ذھب عناوٴہ الدنیوي وجاء ہ العناء الأخروي، فھو حرام وکبیرة عندنا، وفي إباحتہ إعانة الشیطان علی الإسلام والمسلمین کما فی الکافي، قھستاني (رد المحتار)۔
أجمع المسلمون علی أن اللعب بالشطرنج حرام إذا کان بعوض أو تضمن ترک واجب مثل تأخیر الصلاة عن وقتھا،وکذلک إذا تضمن کذبا أو ضررا أو غیر ذلک من المحرمات(الموسوعة الفقہیة، ۳۷:۲۷۱)۔
وذھب الحنفیة إلی رد شھادة لاعب الشطرنج بواحد مما یلي:إذا کان عن قمار أو فوت الصلاة بسببہ أو أکثر من الحلف علیہ أو اللعب بہ علی الطریق أو ذکر علیہ فسقا (المصدر السابق، ۳۵:۲۷۲)۔
فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:
ہمارے مذہب میں شطرنج کھیلنا کسی غرض سے جائز نہیں ہے؛ بلکہ مکروہ تحریمی ہے، جو کہ مثل حرام کے ہے، اور کھیلنے والے کو توبہ کرنا لازم ہے الخ( فتاوی دار العلوم دیوبند، ۱۶:۲۹۲، جواب سوال: ۵۷۱، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم دیوبند)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند