• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 167066

    عنوان: تصویر اگر صرف سر کی ہو تو وہ كیا وہ بھی حرام ہے ؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ تصویر اگر صرف سر کی ہو تو وہ بھی حرام ہے یا کہ نہیں ؟ ایک طالب علم سے سنا کہ اگر صرف گردن سے اوپر کی تصویر ہو تو وہ حرام نہیں ہے ۔ انہوں اس مدعا پر کچھ فقہی عبارات کا بھی حوالہ دیا جو اس وقت مستحضر نہیں مگر ان کا حاصل یہ تھا کہ اگرجاندار کی تصویر سے کچھ ایسے اعضا مٹا دئے جائیں جن پر مدار حیات ہے تو وہ پھر حرام نہیں ہوگی۔ براہ کرام وضاحت فرمادیں کہ فقہ کی کتب میں کچھ ایسی عبارات ہیں اور ان کا مطلب یہی ہے جو اس طالب علم نے بتادیا ہے یا بات کچھ اور ہے ۔ جزاکم اللہ خیرا

    جواب نمبر: 167066

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:327-315/L=4/1440

    ناقص تصویر اگر چہرہ کے بغیر ہو تو اس کا استعمال اور گھر میں رکھنا جائز ہے؛ البتہ ناقص تصویر میں صرف چہرہ موجود ہو باقی بدن موجود نہ ہو تو بعض حضرات احناف اس کے جواز کے قائل ہیں مگر اکثر فقہاء کے نزدیک ایسی تصویر کا استعمال جائز نہیں؛ لہٰذا طالب علم نے جو بات آپ کو بتائی ہے وہ بعض کی رائے ہے، اکثر فقہاء کے نزدیک وہ جائز نہیں۔

    واضح رہے کہ نصفِ اعلیٰ کی تصویر جو عام طور پر مروج ہے اس کا استعمال حنفیہ کے نزدیک بالاتفاق ناجائز ہے؛ کیونکہ یہ ناقص تصویر میں داخل نہیں۔ وتفصیلہ فی (جواہر الفقہ: ۷/ ۲۶۱)

    عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ قَالَ: الصُّورَةُ الرَّأْسُ , فَکُلُّ شَیْءٍ لَیْسَ لَہُ رَأْسٌ , فَلَیْسَ بِصُورَةٍ․ (شرح معانی الآثار:4/287،الناشر: عالم الکتب)

    وَقَالَ الْخطابِیّ: المُرَاد من الصُّور الَّتِی فِیہَا الرّوح مِمَّا لم یقطع رَأسہ أَو لم یمتہن بِالْوَطْءِ․ (عمدة القاری :22/69 الناشر: دار إحیاء التراث العربی بیروت)

    وَنَقَلَ الرَّافِعِیُّ عَنِ الْجُمْہُورِ أَنَّ الصُّورَةَ إِذَا قُطِعَ رَأْسُہَا ارْتَفَعَ الْمَانِعُ.․ (فتح الباری:10/388الناشر: دار المعرفة - بیروت، 1379)

    أو مقطوعة الرأس أی ممحوة الرأس بخیط یخیطہ علیہ حتی لا یبقی للرأس أثر، أو یطلیہ بمغرة أو نحوہ أو ینحتہ فبعد ذٰلک لا یکرہ؛ لأنہا لا تعبد بدون الرأس عادة (تبیین الحقائق، کتاب الصلاة / باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیہا 1/415 دار الکتب العلمیة بیروت)

    أو مقطوعة الرأس أو الوجہ أو ممحوّة عضو لا تعیش بدونہ (الدر المختار) وقال الشامی: قولہ: أو مقطوعة الرأس أی سواء کان من الأصل أو کان لہا رأس ومحی، وسواء کان القطع بخَیطٍ خیط علی جمیع الرأس حتی لم یبق لہ أثر، أو یطلیہ بمغرة أو بنحتہ أو بغسلہ؛ لأنہا لا تعبد بدون الرأس عادة۔ (الدر المختار مع الشامی، کتاب الصلاة / باب ما یفسد الصلاة، 2/418 زکریا)

    وقید بالرأس؛ لأنہ لا اعتبار بإزالة الحاجبین أو العینین؛ لأنہا تعبد بدونہا، وکذا لا اعتبار بقطع الیدین أو الرجلین۔ (شامی، کتاب الصلاة / باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیہا، 2/418 زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند