• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 163783

    عنوان: راستہ روك كر تقریبات منعقد كرنا؟

    سوال: اکثر دیکھنے میں آ تا ہے کہ کسی کے گھر کوئی تقریب جیسے شادی عقیقہ یا حج بیت اللہ سے واپسی پر کھانا وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں اور مذکورہ مقصد کے لیے عام راستہ بند کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو بہت زیادہ تکالیف کا سامنا کر نا پڑتا ہے ۔ منع کرنے پر بحث کرنے لگتے ہے ۔کبھی کبھی تو معاملہ لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتا ہے ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا کسی بھی قسم کی تقریب کے لیے عام راستہ بند کرنا جائز ہے ؟کیا شریعتِ اسلامیہ میں اس کی کسی درجے میں اجازت ہے ؟ برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ آ پ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔

    جواب نمبر: 163783

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1323-168T/H=12/1439

    حدیث میں ہے کہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹادینا ایمان کا سب سے ادنیٰ شعبہ ہے تو پھر راستہ کے ذریعہ تکلیف پہنچانے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟ اس لیے سڑکوں وغیرہ پر تفریبات کرنے سے جس سے لوگوں کی آمد ورفت میں خلل ہو حتی الامکان احتراز کرنا چاہیے؛ لیکن اگر تقریب کے لیے سڑک کے علاوہ کوئی دوسری شکل نہ ہو اور قریب میں کوئی دوسرا راستہ بھی نہ ہو جس سے لوگ اپنی ضروریات پوری کرسکیں نیز وہ تقریب مباح اور ضروری بھی ہو تو بدرجہٴ مجبوری سڑکوں سے تھوڑا سا حصہ لیا جائے اور مناسب راستہ آمد ورفت کا چھوڑدیا جائے۔

     ایک دوسری حدیث میں اس کی گنجائش بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر بدرجہٴ مجبوری راستہ پر بیٹھنا پڑے تو راستے کو اس کا حق دو، صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ! راستے کا کیا حق ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نگاہ نیچی رکھنا، گزرنے والوں کو تکلیف پہنچانے سے بچنا، سلام کا جواب دینا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجبوری میں بھی ایسی صورت اختیار کرنی چاہیے جس سے گزرنے والوں کی آمد ورفت میں خلل نہ ہو اور انھیں تکلیف بھی نہ پہنچے۔ (قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " الإیمان بضع وسبعون شعبة فأفضلہا: قول لا إلہ إلا اللہ وأدناہا: إماطة الأذی عن الطریق الخ (مشکاة، ۱۲) وفي حدیث آخر: قال صلی اللہ علیہ وسلم قال: إیاکم والجلوس بالطرقات․ فقالوا: یا رسول اللہ ما لنا من مجالسنا بد نتحدث فیہا․ قال: فإذا أبیتم إلا المجلس فأعطوا الطریق حقہ․ قالوا: وما حق الطریق یا رسول اللہ قال: غض البصر وکف الأذی ورد السلام والأمر بالمعروف والنہی عن المنکر․ متفق علیہ (مشکاة: ۳۹۸)

    حدیث مذکور میں ”مالنا من مجالسنا بد“ (ہمارے لیے راستے پر بیٹھنا ناگزیر ہے) کے جز ئے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام کو صرف اس صورت میں اجازت دی ہے جب راستے پر بیٹھنے سے بچنے کی کوئی شکل نہ ہو اور فضول مجالس نہ ہوں، جن کا ماحصل یہ ہے کہ تقریب ضروری ہو اس میں فضول بکھیڑے اور غیر شرعی امور نہ ہوں نیز راستہ چلنے والوں کو تکلیف نہ ہو یعنی بس دروازے کے سامنے تھوڑا سا حصہ راستہ کا لے لیا جائے اس کی گنجائش ہوگی۔ پورا راستہ گھیر کر راستہ چلنے والوں کو زحمت پریشانی تکلیف میں ڈالنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند