• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 162754

    عنوان: نکاح پڑھانے پر اجرت لینا؟

    سوال: مفتی صاحب! قاضی کو نکاح کی اجرت لینے کا جواز ہے یا نہیں؟ اور اس کی دلیل بھی دیجئے۔

    جواب نمبر: 162754

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1083-180T/B=1/1440

    نکاح خواں کا جلسہ نکاح میں جانا، گھنٹہ دو گھنٹے بیٹھنا رجسٹر نکاح کو پُر کرنا، لڑکی سے شرعی اجازت منگوانا۔ مناسب مہر مقرر کرنا یا اس کے بارے میں شرعی حکم بتانا پھر خطبہ مسنونہ کے بعد ایجاب و قبول کرانا۔ رجسٹر پر دولہا دولہن سے دستخط کرانا ، وکیل اور گواہان سے دستخط کرانا پھر خود دستخط کرکے رجسٹر کو مکمل کرنا، ایک کاپی لڑکی والوں کو اور ایک کاپی لڑکے والوں کو دینا اور ایک کاپی اپنے پاس ریکارڈ میں رکھنا ، یہ سب ایسے امور ہیں کہ فقہاء متاخرین نے ان امور کی بجاآوری پر اجرت لینے کی اجازت دی ہے جیسے فقہ کی تعلیم دینے اور دخول حمام کی اجرت لینے کو جائز قرار دیا ہے۔ ”فتاوی عالمگیری“ میں ہے وکل نکاح باشرہ القاضی وقد وجبت مباشرتہ علیہ، کنکاح الصغار والصغائر فلایحل لہ أخذ الأجرة علیہ ومالم تجب مباشرتہ علیہ حل لہ أخذ الآخرة علیہ، کذا فی المحیط، واختلفوا فی تقدیرہ والمختار للفتوی أنہ إذا عقد بکراً یاخذ دیناراً وفی الثیب نصف دیناراً ویحل لہ ذلک ہکذا قالوا ۔ کذا فی البرجندی (ص: ۳۴۵/۳) یہ بات بھی واضح رہے کہ جو شخص نکاح پڑھانے کے لئے لے جائے اسی سے اجرت لینا جائز ہے، ایسا نہ ہوکہ بلائے لڑکی والا اور نکاح کی اجرت لڑکے والا دے تو اس سے اجرت لینا جائز نہیں۔ اور نکاح پڑھانے والا پوری اجرت لینے کا حقدار ہوتا ہے، اس میں سے کسی قاضی اور کسی مسجد و مدرسہ کو اپنا حق لینا جائز نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند