• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 158726

    عنوان: بینك سے قرض لینا؟

    سوال: مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ اگر بینک سے لون لینے کی ایسی شکل نکل آئے جس میں ہمیں بینک کو سود نہ دینا پڑے بلکہ اصل بینک کی ہی رقم لوٹانی پڑے تو کیا ہم بینک سے لون لے سکتے ہیں؟) جیسے ہمارے بینک میں اتنی ہی سود کی رقم بینک میں پڑی ہوئی ہے ،یہ اسی بینک کی ہے جس کو وہ لے لیں گے مطلب جو سود بینک نے دیا تھا وہ اسی بینک کے پاس چلا جائے گا جس نے ہمیں دیا تھا اس میں دو فائدے ہیں، ایک تو جو سود ہماری بینک میں تھا جس نے ہمیں دیا تھا وہ اسی کے پاس چلا جائے گا اور سود کی اصل غرض یہ ہے کہ جس نے ہمیں دیا ہے وہ اسی کے پاس واپس لوٹ جائے ، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ہم جو بینک سے پیسے لیں گے اس پر ہمیں کوئی سود نہیں دینا پڑے گا تو کیا یہ عمل درست ہے ؟

    جواب نمبر: 158726

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 544-476/D=5/1439

    صرف بغرض حفاظت بینک میں پیسے رکھنا جائز ہے، اور اس سے ملنے والے سود کا مصرف یہ ہے کہ اس کو ثواب کی نیت کے بغیر فقراء، غرباء میں تقسیم کردیا جائے، سودی رقم سے خود کسی قسم کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے، نیز بلا شدید مجبوری کے سود پر قرض لینا بھی جائز نہیں۔ البتہ اگر اضطراری حالت میں کبھی سود پر قرض لے لیا ہو، تو اس سود کی ادائیگی اپنے پاس موجودہ سودی رقم سے کی جاسکتی ہے۔ (کفایت المفتی: ۸/ ۷۱)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند