• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 156518

    عنوان: بھینس کی حلت كہاں سے ثابت ہے؟

    سوال: حضرت، کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ بھینس کی حلت فقہ سے ہے، قرآن و حدیث سے بھینس کی حلت نہیں ملتی، کیا یہ بات صحیح ہے کہ بھینس کو فقہ نے حلال کیا ہے؟

    جواب نمبر: 156518

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:225-198/D=3/1439

    ادلہٴ شرعیہ چار ہیں: قرآن، حدیث، اجماع، قیاس، لیکن ہرحکم شرعی قرآن وحدیث میں صراحةً نہیں ملتا بلکہ کچھ احکام اجماع سے اور کچھ احکام قرآن وحدیث سے دلالةً اور قیاساً بھی ثابت ہوتے ہیں جیسا کہ بھینس کی حلت قرآن وحدیث سے دلالةً اور اجماع سے صراحة ثابت ہے، چنانچہ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ چیز متفق علیہ ہے کہ اونٹ ، گائے، بھیڑ، بکری کی حلت قرآن وحدیث سے صراحةً ثابت ہے اور ان کی مختلف نسلوں کی حلت قرآن وحدیث سے دلالةً ثابت ہے، مثلاً قرآن میں لفظ ”معز“ بمعنی بھیڑ آیا ہے جس کی نسل میں سے ”دبنہ“ بھی ہے جو شکل وصورت اور نام میں گرچہ ”بھیڑ“ سے مختلف ہے؛ لیکن ”بھیڑ“ کی نسل میں سے ہونے کی بنا پر مشروع وحلال ہے، اسی طرح قرآن میں لفظ ”بقر“ بمعنی ”گائے“ آیا ہے جس کی نسل میں سے ”بھینس“ بھی ہے اور اس کی ایک قسم ہے؛ لہٰذا ”دنبہ“ کی طرح ”بھینس“ بھی حلال ہے، نیز امام ابن المنذر بھینس کی حلت پر اجماع نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وأجمعوا علی أنّ حکمَ الجوامیس حکمُ البقرة․․․ یعنی اس پر اجماع ہے کہ جو حکم گائے کا ہے وہی بھینس کا بھی حکم ہے․․․ معلوم ہوا کہ جس طرح قرآن وحدیث سے مذکورہ چار جانوروں کی حلت صراحةً ثابت ہے اسی طرح ان کے ضمن میں ان کی مختلف نسلوں کی حلت بھی دلالةً ثابت ہے؛ لہٰذا اب قرآن وحدیث اور اجماع سے صرف نظر کرکے یہ کہنا کہ فقہ نے بھینس کو حلال کیا ہے ایک ناانصافی اور بے اعتدالی کی بات ہے، جس سے احتراز ضروری ہے نیز واضح رہے کہ فقہ اسلام کا ایک ایسا مستحکم نظام ہے جس کے تمام تر مسائل قرآن وحدیث ہی کا نچوڑ ہیں اس کو شریعت سے الگ گرداننا محض جہالت اور گمراہی کا سبب ہے۔ وصح الثنیُّ فصاعدا من الثلاثة والثني وہو ابن خمس من الإبل وحولین من البقر و”الجاموس“ وحول من الشاة والمعز إلخ وقال العلامة ابن عابدین -رحمہ اللہ- والجاموس نوع من البقر وکذا المعز نوع من الغنم بدلیل ضمّہا في الزّکاة․ (الدر مع الرد: ۹/۴۶۶، ط: زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند