• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 155378

    عنوان: قرض دینے والے کا گروی (رہن) کے مکان سے فائدہ اٹھانا كیسا ہے؟

    سوال: عرض یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایک قسم کی گروی رائج ہے ، وہ یہ ہے کہ زید بکرسے ایک لاکھ روپئے دوسال تک قرض لیکر اپنے دکان یامکان مذکورہ مدت تک بکرکے پاس رکھتا ہے ، بکر اس دکان یامکان کو خود اپنی استعمال میں لاتے ہیں یادوسرے کو کرایہ پر دیتاہے ۔ اب بکر سودسے بچنے کے خاطر ماہوار توڑا سا کرایہ ( جو اجرةالمثل سے بہت کم ہوتاہے ) مدتِ قرض پوری ہونے تک زیدکو دیتاہے ۔ اور جب مدت پوری ہوگئی توبکر اپنا روپیہ لیکر زیدکو دکان یامکان واپس کردیتاہے ۔ بعض اوقات بکر سے دوسرے اور پھر دوسرے سے تیسرے ۔ لیتابھی رہتاہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مذکورہ معاملہ درست ہے یانہیں؟ اگرنہیں تو اس کا شرعی متبادل کیا ہوسکتاہے ؟ جبکہ بعض حضرات جواز کے بھی قائل ہے ۔ بینوا بالتفصیل وادراج الحوالة

    جواب نمبر: 155378

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:69-48/D=2/1439

    قرض دینے والے کا گروی (رہن) کے مکان سے فائدہ اٹھانا خواہ خود رہائش کرکے یا کرایہ پر اٹھاکر کرایہ وصول کرکے جائز نہیں۔ اور اگر قرض دینے والا مالک مکان کو معمولی کرایہ دیتا ہے جو متعارف کرایہ سے کم ہے تو قرض کے بدلے نفع اٹھانا ہے جو کہ سود ہے کل قرض جر منفعة فہو ربًا (أخرجہ ابن أبي شیبة: ۲۰۶۹۰) پس آپ کے یہاں رائج دونوں صورتیں جائز نہیں ہیں۔

    شریعت نے قرض کو ایک ضرورت مند کی ضرورت پورا کرنے کا عمل خیر قرار دیا ہے جس میں اصل رقم واپس مل جاتی ہے اور ساتھ ہی اٹھارہ گنا ثواب ملتا ہے جو ایک لحاظ سے صدقہ سے زیادہ منفعت بخش ہے کیونکہ صدقہ میں اصل رقم واپس نہیں ملتی اگرچہ ثواب دس گنا اور کبھی اضعافا مضاعفہ ہوجاتا ہے پس متبادل شکل یہی ہے کہ قرض بغیر اضافی عوض کے دیا جائے ورنہ وہ سود میں داخل ہوگا اور نفع حاصل کرنے کے سودی طریقے کو اللہ نے حرام کیا ہے اور بیع تجابت کو حلال اور جائز قرار دیا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند