• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 155190

    عنوان: اگر گاڑی والا دفتر والے شخص کو سو دو سو اس مقصد سے دیتا ہے کہ آئندہ بھی وہ اس کے ذریعہ سے کام کرواتا رہے تو كیا یہ درست ہے؟

    سوال: اگر کوئی شخص ایک دفتر میں کام کرتا ہو، اور وہ اس دفتر کا مال ٹرانسپورٹ گاڑیوں کے ذریعہ خریداروں کو پہنچاتا ہو، اور گاڑی والے اپنا جو بھی پیسہ طے ہوتا ہے اسے لے لیتے ہوں، مثلاً ایک جگہ سے دوسری جگہ مال پہونچانے کے لیے دوہزار روپئے طے ہوں اور وہ شخص پورے دوہزار اُس گاڑی والے کو دے دیا اور اس دوہزار کا مالک اس شخص کو بنا دیا اور اس کی ملکیت میں دو ہزار دے دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر وہ گاڑی والا اس دفتر کے شخص کو کچھ ۱۰۰/ یا ۲۰۰/ روپئے دیدے، اور وہ گاڑی والا اپنی خوشی سے دیدے، اور دفتر والے شخص کا دباوٴ بھی نہ ہو اور اس شخص کی کچھ شرط بھی نہ ہو کہ اِتنا دینا ہے اُتنا دینا ہے کرکے، اور گاڑی والے کبھی ۱۰۰، کبھی ۲۰۰، کبھی ۵۰، اور کبھی کچھ نہیں، اور اس پر دفتر والے کا کچھ سوال نہیں، اور اپنی رضامندی اور اپنی ملکیت میں وہ پیسے آجانے کے بعد، کیا گاڑی والے کا دیا ہوا پیسہ، اس دفتر والے کے لیے لینا درست ہے؟ اگر نہیں تو اس کی جائز شکل کیا ہوگی؟ اور وہ گاڑی والا ایسے ہی اپنی خوشی سے جو اس کو مل جانے پر وہ ۱۰۰ یا ۲۰۰/ دے دیتا ہے، اس سے زبردستی نہیں لیا جاتا اور کچھ شرط بھی نہیں ہے۔

    جواب نمبر: 155190

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 51-51/M=1/1439

    صورت مسئولہ میں اگر گاڑی والا دفتر والے شخص کو سو دو سو اس مقصد سے دیتا ہے کہ آئندہ بھی وہ اس کے ذریعہ سے کام کرواتا رہے تو اس میں ایک گونہ رشوت کا شائبہ پایا جاتا ہے نیز دفتر والے کے دل میں اگر طمع بھی پایا جاتا ہو کہ گاڑی والا کچھ نہ کچھ ضرور دے گا تو یہ اشراف نفس ہے اسے لیے اس پیسے کا لینا بے غبار اور پاکیزہ نہیں، احتیاط و سلامتی اسی میں ہے کہ اسے نہ لیا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند