متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 150229
جواب نمبر: 150229
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 692-716/N=7/1438
(۱- ۵): سوال میں جی پی فنڈ کی جو صورت ذکر کی گئی ہے، یہ جبری (غیر اختیاری) فنڈ ہے، یعنی: ہر ملازم کی تنخواہ سے اس کے اسکیل کے حساب سے ایک متعینہ فیصد کی کٹوتی لازم وضروری ہے، اس میں ملازم کا کچھ اختیار نہیں ہوتا، نہ وہ اس کٹوتی کو بند کراسکتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی تبدیلی (کمی بیشی) کراسکتا ہے۔ اور اس طرح کے جبری فنڈ کے متعلق تمام اکابر مفتیان کرام کی متفقہ تحقیق یہ ہے کہ جبری فنڈ پر،سالانہ جو اضافے کیے جاتے ہیں، وہ شرعاً سود میں داخل نہیں ہیں خواہ اس وجہ سے کہ فنڈ کی رقم قبضہ سے پہلے ملازم کی ملک ہی نہیں ہوتی اوروضع کردہ رقم پر طے شدہ اضافات از قبیل تبرع ہیں (جیسا کہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبرحمہ اللہ کی یہی تحقیق ہے)یا فنڈ کی رقم قبضہ سے پہلے ملازم کی ملک ہوجاتی ہے اور اصل کی طرح اضافے بھی اجرت عمل اور تنخواہ کا حصہ ہوتے ہیں اور تاجیل کی وجہ سے یہ اضافے ہوتے ہیں (جیساکہ حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویرحمہ اللہ کی یہی تحقیق ہے)؛ اس لیے سوال میں مذکور فنڈ میں جو کچھ رقم جمع ہوتی ہے اور جو اضافے ہوتے ہیں، وہ سب از روئے شرع جائز ہیں، اس میں کچھ شک شبہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر کوئی شخص سالانہ اضافے بند کرادیتا ہے تو پہلے قول کے مطابق یہ تبرع کی قبولیت سے انکار ہے اور دوسرے قول کے مطابق تاجیل کی صورت میں تنخواہ کا اضافی حصہ واپس کرنا ہے یا اسے نہ لینا ہے۔ اور آدمی کو شرعاً اس کا اختیار ہے کہ وہ تبرع قبول نہ کرے یا تنخواہ کا کچھ حصہ ادارے کو واپس کردے یا اضافہ قبول نہ کرے ؛ اس لیے شرعاً منافع نہ لینے والے کا عمل بھی درست ہے۔ اور فنڈ سے ۸۰/ فیصد تک جو رقم لینے کا اختیار ہے ، یہ دونوں قولوں کے مطابق قرض کی شکل ہے ؛ اس لیے اس پر جو مزید وصول کیا جاتا ہے ، اس میں بہ ظاہر سود کا شائبہ ہے؛ اس لیے جو ملازم فنڈ نکلوانے سے پہلے اس پر ملنے والا اضافہ بند کرادیتے ہیں اور اضافی کٹوتی کا زمانہ ختم ہوجاتا ہے تو وہ سالانہ اضافہ بحال کرالیتے ہیں تو اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں، اسے سود کو حلال کرنے کا حیلہ نہیں کہہ سکتے؛ بلکہ اس کا یہ عمل بہتر ہے ۔ اور ملازم کے فنڈ کی رقم ادرہ کہاں لگاتا ہے؟ اسے جاننے اور اس کی تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں ؛ البتہ اگر ادارہ اضافے خالص سودی رقم یا کسی اور حرام مال سے دیتی ہو اور اس کی صحیح تحقیق ہوجائے تو اس پر غور کیا جاسکتا ہے ورنہ ہمیں بلا وجہ شک شبہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند