متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 150092
جواب نمبر: 150092
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 821-775/sn=7/1438
”لون“ لینا تو ایک ناجائز عمل ہے؛ لیکن لون کے طور پر جو رقم لی گئی ہوتی ہے وہ چونکہ درحقیقت قرض ہے؛ اس لیے قرض لینے والا شرعاً اس کا مالک ہوجاتا ہے؛ لہٰذا اس رقم سے جو گھر تعمیر کیا گیا ہو اس میں ”خبث“ نہیں ہے، شرعاً اس میں رہنا جائز ہے؛ لہٰذا آپ اس گھر میں رہ سکتے ہیں، نیز اپنی بیوی کو بھی لاسکتے ہیں اور اس لون کے پیسوں سے آپ کا تعلیم حاصل کرنا بھی جائز ہے، نیز اس تعلیم کے نتیجے میں آپ کو جو نوکری ملے گی اس کی تنخواہ آپ کے لیے بہرحال حلال رہے گی، بہ شرطے کہ ”نوکری“ مباح ہو؛ البتہ آپ کے والدین نے ”لون“ لے کر جو ایک ناجائز عمل کیا ہے اس سے انھیں سچے دل سے توبہ کرنی چاہیے، نیز انھیں چاہیے کہ جلد از جلد ”لون“ کی ادائیگی کرکے اس گناہ سے چھٹکارا حاصل کرلیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بینک کی ایسی ملازمت جس میں سودی معاملات مثلاً لون، فکسڈ ڈپازٹ کی تائید وتوثیق کرنی پڑتی ہو یا سودی حساب کتاب لکھنا پڑتا ہو، شرعاً جائز نہیں ہے، ناجائز عمل کے بالمقابل جو اجرت (تنخواہ) حاصل ہوگی وہ بھی حلال نہیں ہے؛ اس لیے آپ کے والد کی ملازمت اگر اس نوعیت کی ہو تو انھیں چاہیے کہ کوئی دوسری جائز ملازمت تلاش کریں اور ملتے ہی یہ چھوڑدیں، نیز بینک سے جو تنخواہ ملی ہے اس میں سے جتنی مقدار ”ناجائز عمل“ کے مقابلے میں حاصل ہوئی ہو اُسے آہستہ آہستہ صدقہ کردیں؛ باقی تنخواہ کا جو حصہ مباح امور کی انجام دہی کے معاوضہ کے طور پر حاصل ہوا ہے، وہ حلال ہے، اس کا تصدق واجب نہیں ہے، عمل اور ذمے داری کی نوعیت پر غور کرکے دونوں طرح کی تنخواہوں کا تخمینہ کیا جاسکتا ہے۔ (امداد الفتاوی: ۳/ ۱۶۹، سوال: ۲۲۱، ط: کراچی)
-----------------------------
جواب صحیح ہے البتہ یہ بھی عرض ہے کہ آئندہ تعلیم کے لیے لون نہ لیا جائے اور اگر اس کے بغیر تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھانا ممکن نہ ہو تو تعلیم موقوف کردیں۔(ن)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند