متفرقات >> حلال و حرام
سوال نمبر: 150074
جواب نمبر: 150074
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 665-641/N=7/1438
سوال میں حرام کاروبار کی وضاحت نہیں کی گئی ہے، اگر اس کی وضاحت کی جاتی تو بہتر ہوتا؛ کیوں کہ ناجائز کاروبار کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں اور کسی صورت کا حکم دوسری صورتوں سے مختلف بھی ہوسکتا ہے، نیز حرام کاروبار والے شخص کی دعوت یا ہدیہ کے مسئلہ میں اصل آمدنی کا اعتبار ہوتا ہے ، یعنی: اگر کسی شخص کی کل یا اکثر آمدنی حرام ہے تو اس کی دعوت یا ہدیہ قبول کرنا درست نہیں؛ البتہ کہیں سے حلال رقم کا انتظام کرلے اور اس سے دعوت کرے یا ہدیہ دے تو گنجائش ہے۔ اور اگر کل یا اکثر آمدنی جائز ہے تو ایسے شخص کی دعوت یا ہدیہ قبول کرنے کی گنجائش ہے اور اگر کوئی پرہیز کرے تو اچھی بات ہے ۔
ہر حال صورت مسئولہ میں اگر کسی شخص کی کل یا اکثر آمدنی حرام ہے اور اس نے اپنی عام آمدنی سے دعوت کا نظم کیا تو زید یا بکر یا کسی مسلمان کے لیے اس کے یہاں دعوت کھانا جائز نہیں۔ اور سوال میں جو حیلہ ذکر کیا گیا ، یہ سخت مجبوری میں ہی کارگر ہوسکتا ہے ، یعنی: داعی ایسا شخص ہو کہ اگر اس کی دعوت قبول نہ کی جائے تو اس کی جانب سے ضرر کا اندیشہ ہو یا کوئی فتنہ کی شکل ہوسکتی ہو، عام حالات میں معذرت کردینا ضروری ہوگا، اس صورت میں کوئی حیلہ مفید اور کارگر نہ ہوگا۔
أھدی إلی رجل شیئا أو أضافہ إن کان غالب مالہ من الحلال فلا بأس إلا أن یعلم بأنہ حرام، فإن کان الغالب ھو الحرام ینبغي أن لا یقبل الھدیة ولا یأکل الطعام إلا أن یخبرہ بأنہ حلال ورثتہ أو استقرضتہ من رجل کذا فی الینابیع۔ ولا یجوز قبول ھدیة أمراء الجور؛لأن الغالب في مالھم الحرمة إلا إذا علم أن أکثر مالہ حلال بأن کان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس بہ ؛لأن أموال الناس لا تخلو عن قلیل حرام فالمعتبر الغالب، وکذا أکل طعامھم کذا فی الاختیار شرح المختار(۴:۱۸۷ط دار الکتب العلمیة بیروت)(الفتاوی الھندیة، کتاب الکراھیة، الباب الثاني عشر فی الھدایا والضیافات۵:۳۴۲ط مکتبة زکریا دیوبند)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند