• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 13383

    عنوان:

    میری کزن حجن ہے اور وہ اکثر و بیشتر عمرہ کرنے کے لیے جاتی ہے۔ وہ اور اس کے مرد ساتھی عرب امارات میں نقدر رقم (بطور امانت کے) لوگوں سے لیتے ہیں اور ہر ماہ ان کو اس رقم کا دس فیصد دیتے ہیں۔ وہ زر امانت یا جمع شدہ رقم جو کہ ان کو دی جاتی ہے جب بھی ان کو واپس لینا چاہیں بغیر کسی کٹوتی کے واپس مل جاتی ہے۔جب ان سے اس رقم کی سرمایہ کاری کے بارے میں بات چیت کی گئی تو انھوں نے بتایا کہ اس رقم کوسامانوں کو ایکسپورٹ اور امپورٹ کرنے میں استعمال کرتے ہیں اور جو دس فیصد کی رقم ہر ماہ دی جاتی ہے وہ حلال رقم ہے۔ لیکن مجھ کو ان کی بات سے اطمینان نہیں ہے کیوں کہ یہ بات کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص ہر ماہ ہماری جمع شدہ رقم پر دس فیصد دے اور جب ہم اس رقم کو واپس لینا چاہیں تو وہ رقم بغیر کسی کٹوتی کے واپس بھی ہوجاتی ہو؟ میرا سوال یہ ہے کہ اگر چہ ہم سے کہا جاتا ہے کہ اس کو اچھی جگہوں میں استعمال کرتے ہیں لیکن اگر کبھی غلط جگہ پر استعمال کی گئی تو ہم کو کبھی بھی نہیں معلوم ہوگا تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟کیا جو رقم یعنی دس فیصد ہر ماہ وصول کی جاتی ہے وہ حلال ہے،یا سود شمار کی جائے گی؟ برائے کرم وضاحت فرماویں۔

    سوال:

    میری کزن حجن ہے اور وہ اکثر و بیشتر عمرہ کرنے کے لیے جاتی ہے۔ وہ اور اس کے مرد ساتھی عرب امارات میں نقدر رقم (بطور امانت کے) لوگوں سے لیتے ہیں اور ہر ماہ ان کو اس رقم کا دس فیصد دیتے ہیں۔ وہ زر امانت یا جمع شدہ رقم جو کہ ان کو دی جاتی ہے جب بھی ان کو واپس لینا چاہیں بغیر کسی کٹوتی کے واپس مل جاتی ہے۔جب ان سے اس رقم کی سرمایہ کاری کے بارے میں بات چیت کی گئی تو انھوں نے بتایا کہ اس رقم کوسامانوں کو ایکسپورٹ اور امپورٹ کرنے میں استعمال کرتے ہیں اور جو دس فیصد کی رقم ہر ماہ دی جاتی ہے وہ حلال رقم ہے۔ لیکن مجھ کو ان کی بات سے اطمینان نہیں ہے کیوں کہ یہ بات کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص ہر ماہ ہماری جمع شدہ رقم پر دس فیصد دے اور جب ہم اس رقم کو واپس لینا چاہیں تو وہ رقم بغیر کسی کٹوتی کے واپس بھی ہوجاتی ہو؟ میرا سوال یہ ہے کہ اگر چہ ہم سے کہا جاتا ہے کہ اس کو اچھی جگہوں میں استعمال کرتے ہیں لیکن اگر کبھی غلط جگہ پر استعمال کی گئی تو ہم کو کبھی بھی نہیں معلوم ہوگا تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟کیا جو رقم یعنی دس فیصد ہر ماہ وصول کی جاتی ہے وہ حلال ہے،یا سود شمار کی جائے گی؟ برائے کرم وضاحت فرماویں۔

    جواب نمبر: 13383

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1260=1028/د

     

    آپ کا شبہ درست ہے، دس فیصد کی اضافی رقم سود ہے۔ نفع کے درست ہونے کا مدار صرف اچھی جگہ استعمال کرنے پر نہیں ہے بلکہ جائز کاروبار میں لگانے کے ساتھ کاروبار کا باقاعدہ حساب کتاب رکھ کرمطابق حساب نفع/ نقصان کی جو شکل بنے وہ حصہ داروں پر تقسیم کیا جائے۔ کاروبار میں صرف نفع ہی ہونا اور وہ بھی ایک طرح کی متعینہ مقدار میں عقل وتجربہ کے خلاف ہے لہٰذا مذکور فی السوال صورت میں 10% فی صد کی متعینہ اضافی رقم بلاشبہ سود میں داخل ہے، اس کا لین دین کرنا ناجائز وحرام ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند