• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 69317

    عنوان: عورتوں کا مردوں کے ساتھ طواف کرنے كے سلسلے میں دو نیک مشورے

    سوال: ۱۴۳۶ ئھ کے حج کے موقع پر میں نے یہ دیکھا کہ بیت اللہ کے طواف کے دوران کافی بھیڑ اور ہجوم کی وجہ سے اچھے اچھے تندرست مرد بھی سنگ اسود کو چھو نہیں پاتے۔ اس ہجوم میں عورتیں بھی مردوں کو دھکا دے کر اور رگڑ کر سنگ اسود کو چھونے کی ناکام کوشش کررہی ہیں۔ اگر کوئی عورت سنگ اسود کو چھو بھی لیتی تو میرے خیال سے یہ اچھا عمل ہرگز نہیں ہوتا۔ اس طرح سے تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمان اور غیر محرم سے حجاب کی دھجی اڑ جاتی ہے جو یقینا گناہ کا موجب ہے۔ اس کے علاوہ بیت اللہ میں عورتوں کو نماز پڑھنے کے لیے کوئی معقول انتظام بھی نہیں ہے۔ عورتوں کو پیچھے صف میں رکھنا ناممکن سا لگتا ہے۔ جس کی وجہ سے عورتیں مردوں کے آگے بھی نماز پڑھتی ہیں۔ اس سے اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کی نافرمانی ہوتی ہے۔ یہ بھی گناہ کا موجب ہے۔ اس لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ بیت اللہ کی پہلی منزل عورتوں کے لیے مخصوص کردیا جائے۔ عورتیں اس پر طواف بھی کرلیں گی اور نماز بھی پڑھ لیں گی۔ اس طرح ان کا ہر عمل قرآن و سنت کے دائرے میں بحسن و خوبی ادا ہوجائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مسجد عزیزیہ کے امام صاحب سے سوال و جواب کے دوران مجھے یہ معلوم ہوا کہ کتاب و سنت اور آثار صحابہ سے ایک سفر میں ایک ہی عمرہ ثابت ہے۔ حج کے بعد عمرہ ان عورتوں کے لیے ہے جو ناپاکی کی وجہ سے حج سے پہلے عمرہ نہیں کرپاتیں۔ مگر میں نے دیکھا کہ لوگ حج کے بعد بھی کئی کئی عمرہ کئے جارہے ہیں۔ جو عمل کتاب و سنت سے ثابت نہ ہو اور نہ ہی کسی صحابی کے قول و فعل سے ثابت ہو وہ عمل تو صریح بدعت ہے۔ بدعت کو جاری رکھنا بھی گناہ کا موجب ہے۔ اس لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ علماء حق مل کر علم و حکمت کے ساتھ اس بدعت کو روکنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی اس سلسلے میں کوشش کرنے والوں کو اجر عطاء کرے۔ آمین

    جواب نمبر: 69317

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1020-1020/M=10/1437 عورتوں کا مردوں کے ساتھ طواف کرنا جائز اور ثابت ہے لیکن عورتوں کو چاہئے کہ ایسے وقت میں طواف کریں جبکہ بھیڑ بھاڑ کم ہو اور مردوں سے ہٹ کر کنارہ ہوکر طواف کریں اور پردے کا خیا ل رکھیں بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ ابن ہشام (جو مکہ کے گورنر تھے) نے اختلاط سے بچنے کے لیے الگ الگ وقت مقرر کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت عطاء  نے منع فرمایا، بہرحال آپ کا پہلا مشورہ نظم و انتظام سے متعلق ہے آپ سعودی حکومت یا ارباب حرم مکی کو لکھ کر بھیجیں اور جو مشورہ دینا چاہتے ہیں ان کو دیں۔ آپ نے دوسری بات کے تحت مسجد عزیزیہ کے امام کا جو قول نقل کیا ہے ”کہ کتاب و سنت اور آثار صحابہ سے ایک سفر میں ایک ہی عمرہ کرنا ثابت ہے“ تو اس بات کا حوالہ کیا ہے؟ کونسی روایت سے ایسا ثابت ہے وہ روایت مکمل حوالے کے ساتھ لکھنی چاہئے، امام نے کیا بات کہی اور آپ نے کیا سمجھا، آپ کو چاہئے تھا کہ اس پر بدعت کا حکم لگانے سے پہلے مسئلے کی صحیح جانکاری معتبر عالم دین و مفتی صاحب سے کرلیتے، حضرت عمر  نے اپنے دور خلافت میں حج کے بعد عمرہ کرنے سے منع کیا تھا اور مصلحت یہ تھی کہ لوگ عمرہ کے لیے مستقل سفر کرکے آئیں اور مکہ پورے سال آباد رہے تو یہ منع فرمانا مصلحةً تھا مسئلہ یہ ہے کہ ایک سفر میں ایک سے زائد عمرہ کرنا جائز ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند