• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 66074

    عنوان: انعامی بانڈز کی رقم سے حج کرنا کیسا ہے؟

    سوال: میرے ایک دوست نے پرائز بانڈ لیا ہوا تھا۔ قرعہ اندازی ہوئی جس میں اس کا انعام نکل آیا۔ مفتی صاحب سے پوچھنا ہے کہ کیا اس رقم سے عمرہ ادا کر سکتا ہے ؟ جواب سے مطلع فرمائیں۔ شکریہ

    جواب نمبر: 66074

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 885-854/N=9/1437 مروجہ انعامی بانڈز میں قرعہ میں نام آنے پر انعام کے نام سے جو رقم دی جاتی ہے، شریعت کی روشنی میں وہ خالصتاً سود ہے؛ کیوں کہ انعامی بانڈز میں جمع کردہ رقم سود چڑھتا ہے جو قرعہ اندازی کے ذریعے قمار (جوے) کے طریقہ پر تقسیم کی جاتی ہے، اور مذہب اسلام میں سود وقمار دونوں قطعی طور پر حرام وناجائز ہیں؛ اس لیے آپ کے دوست کے لیے صرف اس کی جمع کردہ رقم جائز ہے، باقی رقم جائز نہیں، وہ بلا نیت ثواب غربا ومساکین کو دیدی جائے۔ اور آپ کادوست اگر اصل جمع کردہ رقم سے عمرہ کرتا ہے تو کچھ حرج نہیں اور اگر اس کے ساتھ مزید ملی ہوئی رقم بھی شامل کرلیتا ہے تو یہ عمرہ اللہ کے نزدیک قابل قبول نہ ہوگا؛ کیوں کہ حرام مال سے کیا جانے والا حج یا عمرہ اللہ کے نزدیک قبول نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسے شخص کی لبیک سنی جاتی ہے، ﴿وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ (سورہ بقرہ، آیت: ۲۷۵)، ﴿یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَا وَیُرْبِیْ الصَّدَقَاتِ﴾ (سورہ بقرہ، آیت: ۲۷۶)، ﴿وَاَخْذِہِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُہُوْا عَنْہُ﴾ کان الربا محرمًا علیہم، کما حرم علینا ﴿وَاَخْذِہِمْ اَمْوَالَہُمُ النَّاسَ بِالْبَاطِلِ﴾ بالرشوة وسائر الوجوہ المحرمة (مدارک التنزیل وحقائق التأویل ۱: ۲۰۲، سورہ آل عمران، آیت: ۱۳۰)، ﴿یَأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَأْکُلُوْا الرِّبَا اَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ، وَاتَّقُوْا النَّارَ الَّتِيْ اُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ﴾ (سورہ آل عمران، آیت: ۱۳۰، ۱۳۱)، کان أبوحنیفة یقول: ہي أخوف آیة في القراٰن حیث أوعد اللّٰہ المؤمنین بالنار المعدة للکافرین، إن لم یتقوہ في اجتناب محارمہ (مدارک التنزیل۱: ۲۹۱)، عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (مسلم شریف ۲: ۷۲، ، مطبوعہ؛ مکتبہ اشرفیہ دیوبند)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الابصار مع در وشامی ۷: ۳۹۸ - ۴۰۰، مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند)، أفتی بعض أکابرنا أن للمسلم أن یاخذ الربا من أصحاب البنک أہل الحرب في دارہم، ثم یتصدق بہ علی الفقراء ولا یصرفہ إلی حوائج نفسہ (إعلاء السنن۱۴: ۳۷۲، مطبوعہ: ادارة القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی)، یٰأیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون (سورہ مائدہ، آیت: ۹۰)، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ حرم علی أمتي الخمر والمیسر (مسند احمد ۲: ۳۵۱، حدیث نمبر: ۶۵۱۱)، ﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة (معالم التنزیل ۲: ۵۰)، لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخریٰ۔ وسمی القمار قمارًا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وہو حرام بالنص (شامی، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء، فصل في البیع ۹: ۵۷۷، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)، وفی الحدیث: وإذا خرج بالنفقة الخبیثة فوضع رجلہ فی الغرز فنادی لبیک ناداہ مناد من السماء لا لبیک ولا سعدیک، زادک حرام ونفقتک حرام وحجک مأزور غیر مبرور (الترغیب والترھیب للمنذري، کتاب الحج، الترغیب فی النفقة فی الحج والعمرة وما جاء فیمن أنفق فیھما من مال حرام ص ۲۶۳)، قال فی البحر: ویجتھد في تحصیل نفقة حلال؛ فإنہ لا یقبل بالنفقة الحرام کما ورد فی الحدیث (رد المحتار ۳: ۴۵۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند