• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 65312

    عنوان: پاوَں میں زخم ہونے کی وجہ سے موزے پہن کر عمرہ کیا ؟

    سوال: (1)زید نے عمرہ کی نیت کی ، پاوَں میں کھال پھٹنے سے زخم تھا، چلنے میں بہت تکلیف کی وجہ سے موزے پہن کر عمرہ کیا تو کیا اس وجہ سے اس پر کوئی کفارہ وغیرہ لازم ھے ؟ (2) ریاض سے آنے والے اپنے رشتہ دار وں کے پاس جدہ میں رکتے اور پھر عمرہ کے لئِے گھر ہی سے احرام باندھ کر عمرہ کرلیتے کیا یہ صحیح ھے یا ان کو اپنی میقات سے نیت کرنا ھے ؟اگر کوئی ایسے عمرہ کرلیا ہو تو کیا اس پر دم واجب ھوگا؟

    جواب نمبر: 65312

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 866-863/N=9/1437 (۱) : مرد کے لیے حالت احرام میں موزے کے ذریعے ٹخنے ڈھانکنا جائز نہیں، اور اگر کسی شخص نے حالت احرام میں موزے پہن کر ٹخنے ڈھانکے اور کم از کم ۱۲/ گھنٹے موزے پہنے رہا تو اس پر دم واجب ہوگا اور اگر اس سے کم پہنا تو صدقہ واجب ہوگا، البتہ اگر عذر کی وجہ سے موزے پہننا پڑا، یعنی: موزے پہن کر ٹخنے چھپائے بغیر اس کے لیے کوئی چارہ نہ تھا اور مکمل ۱۲/ گھنٹے پہنے رہا تو اسے اختیار ہوگا کہ جی چاہے، دم دیدے یا چھ مسکینوں پر تین صاع گیہوں صدقہ کردے، یعنی: ہر مسکین نصف صاع (ایک کلو، ۶۳۳/ گرام) گیہوں یا اس کی قیمت دیدے یا تین دن روزہ رکھے، أما لو لبسھما قبل القطع یوماً فعلیہ دم وفي أقل صدقة۔ لباب (رد المحتار ۳: ۵۰۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، وإن… لبس لعذر خیر، إن شاء ذبح شاة وإن شاء تصدق بثلاثٰة علی ستة مساکین، وإن شاء صام ثلاثہ أیام (ملتقی الأبحر مع المجمع والدر، ۱: ۴۳۳، ط: دار الکتب العلمیة بیروت) ، ومثلہ في الدر المختار (مع الرد ۳: ۵۹۰، ۵۹۱) ، و فی الرد (۳: ۵۹۱) : ومن الأعذار الحمی والبرد والجرح والقرح والصداع والشقیقة والقمل، ولا یشترط دوام العلة ولا أداوٴھا إلی التلف؛ بل وجودھا مع تعب ومشقة یبیح ذلک الخ۔ (۲) : اگر ریاض سے آنے والے حضرات اپنے گھر سے عمرہ ہی کے ارادے سے نکلتے ہیں اور جدہ میں اپنے رشتہ داروں کے پاس ایک دو روز رک کر مکہ مکرمہ جاتے ہیں تو اس میں دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ وہ عین میقات سے گذر کر ریاض پہنچتے ہوں، اس صورت میں انھیں میقات سے پہلے ہی عمرہ کا باندھ لینا ضروری ہوگا؛ کیوں کہ جدہ باعتبار مسافت یا محاذات بحکم میقات ہے، عین میقات نہیں ہے اور عین میقات سے گذرنے والے کے لیے محاذات میقات نہیں ہوتی۔ اور اگر ایسے شخص نے میقات سے عمرہ نہ باندھ کر جدہ سے احرام باندھا تو ایک دم واجب ہوگا۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ ریاض سے براہ جدہ عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ جانے والے کا عین میقات سے گذرنہیں ہوتا؛ بلکہ محاذات میقات سے گذرہوتا ہے، اس صورت میں اس شخص کا جدہ بلا احرام جانا اور جدہ سے عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ جانا درست ہوگا، البتہ محاذات میقات ہی سے احرام باندھ لینا افضل ہوگا، ولو لم یمر بہا تحری وأحرم إذا حاذی أحدہا وأبعدہا أفضل (الدرالمختار مع رد المحتار ۳: ۴۸۱، ۴۸۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، قولہ: (ولو لم یمر الخ) : کذا فی الفتح، ومفادہ أن وجوب الاحرام بالمحاذاة إنما یعتبر عند عدم المرور علی المواقیت، اما لو مر علیہا فلا یجوز لہ مجاوزة آٰخر ما یمر علیہ منہا، وإن کان یحاذی بعدہ میقاتاً اٰخر (رد المحتار، ومثلہ فی الہندیة ۱: ۲۲۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند و البحرالرائق ۲: ۵۵۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، تنبیہ: فلو مر بمیقات ومحاذاة الثانی لا تعتبر المحاذاة۔ (غنیة الناسک ۵۳) تنبیہ: فلو کان یمر بواحد منہا عیناً فلا تعتبر المحاذاة بعدہ (غنیة الناسک، ص: ۵۴) ، وإن لم یعلم المحاذاة فعلی مرحلتین عرفیتین من مکة کجدة من طرف البحر، فإنہا علی مرحلتین عرفیتین من مکة وثلاث مراحل شرعیة (غنیة الناسک، ص: ۵۴، ومثلہ فی الہندیة ۱: ۲۲۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند، وفتح القدیر ۲: ۴۲۶ والبحر الرائق ۲: ۵۵۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند