عبادات >> حج وعمرہ
سوال نمبر: 61403
جواب نمبر: 61403
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1026-998/N=12/1436-U نیت نام ہے دل کے ارادہ کا؛ اس لیے صورت مسئولہ میں اگر متمتع نے عمرہ کا احرام باندھتے وقت صرف عمرہ کی نیت کی لیکن زبان سے عمرہ کے بجائے تمتع (جس کے مفہوم میں عمرہ اور حج دونوں داخل ہیں) کے الفاظ نکل گئے تو اصل نیت کا اعتبار ہوگا، الفاظ کا اعتبار نہ ہوگا اور یہ حج تمتع ہی رہے گا، قران میں تبدیل نہ ہوگا۔ اور اگر الفاظ کا اعتبار کیا جائے تب بھی یہی حکم ہوگا؛ کیوں کہ تمتع کا لفظ اگرچہ عمرہ اور حج دونوں کو شامل ہے، لیکن تمتع کے مفہوم میں عمرہ اور حج دونوں کے احرام کا الگ الگ ہونا بھی داخل ہے، جب کہ قران میں ایک ہی احرام میں عمرہ اور حج دونوں کو جمع کرنا شرط ہے، نیز اگر نیت اور الفاظ نیت میں اختلاف ہوجائے تو نیت کا اعتبار ہوتا ہے، الفاظ نیت کا اعتبار نہیں ہوتا قال فی الدر (مع الرد، کتاب الحج ۳: ۴۸۹، ۴۹۰ط مکتبة زکریا دیوبند) : (وقال المفرد بالحج) بلسانہ مطابقاً لجنانہ …… (ثم لبی دبر صلاتہ ناویاً بھا) بالتلبیة (الحج) بیان للأکمل وإلا فیصح الحج بمطلق النیة ولو بقلبہ لکن بشرط مقارنتھا بذکر یقصد بہ التعظیم اھ وفي الرد: قولہ: ”ناویاً بھا الحج“ قال فی النھر: فیہ إیماء إلی أنھا غیر حاصلة بقولہ: اللھ إنی أرید الحج الخ؛ لأن النیة أمر آخر وراء الإرادة، وھو العزم علی الشییٴ کما قال البزازي، وقد أفصح عن ذلک ما قالہ الراغب: إن دواعی الإنسان للفعل علی مراتب: السانح، ثم الخاطر، ثم الفکر، ثم الإرادة، ثم الھمة، ثم العزم، ولو قال بلسانہ: نویت الحج وأحرمت بہ لبیک الخ کان حسناً لیجتمع القلب واللسان کذا فی الزیلعي الخ…………، قولہ: ”لو بقلبہ“ : لأن ذکر ما یحرم بہ من الحج أو العمرة باللسان لیس بشرط کما فی الصلاة للزیلعي اھ، وقال فی الھندیة (کتاب الحج، الباب الثالث فی الإحرام ۱: ۲۲۳ط مکتبة زکریا دیوبند) : ولو لبی بالحج وھو ینوی العمرة أو لبی بالعمرة وھو ینوی الحج فھو کما نوی ولو لبی بحجة وھو ینوی العمرة والحجة کان قارناً کذا في محیط السرخسي اھ، وقال فی الدر (۳: ۵۵۴، ۵۵۵) : والقران شرعاً أن یھل أي: یرفع صوتہ بالتلبیة بحجة وعمرة معاً حقیقة أو حکماً الخ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند