• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 55543

    عنوان: ایک بندہ حج کی نیت سے گیا اور میقات سے جان بوجھ کر احرام نہیں باندھا اور مکہ میں جا کر ایک دم دے دیا تو کیا اس کا حج ہوگا؟

    سوال: ایک بندہ حج کی نیت سے گیا اور میقات سے جان بوجھ کر احرام نہیں باندھا اور مکہ میں جا کر ایک دم دے دیا تو کیا اس کا حج ہوگا؟ کیوں کہ ہم نے یہ سنا ہے کہ اگر کوئی بھول کر نہیں باندھتاہے تو اس پر دم واجب ہوتاہے۔ مہربانی فرما کر جان بوجھ کر احرام نہ باندھنے سے حج کے متعلق فرمائیں۔

    جواب نمبر: 55543

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 59-59/Sd=11/1435-U میقات سے قصداً احرام نہ باندھنا بڑے گناہ اور محرومی کی بات ہے، بعض فقہاء کے نزدیک قصداً غلطی کرنے کی صورت میں دم دینے کے باوجود حج مقبول نہیں ہوتا ہے، صورتِ مسئولہ میں اگر شخصِ مذکور نے جان بوجھ کر میقات سے حج کا احرام نہیں باندھا تھا، تو اس پر میقات کی طرف واپس لوٹ کر احرام باندھنا واجب تھا، اگر وہ واپس نہیں لوٹا اور پھر احرام باندھ کر یا بغیر احرام کے حج کرلیا تو دم دینے سے حج کا فریضہ اگرچہ ساقط ہوجائے گا؛ لیکن وہ دوہرے گناہ کا مرتکب ہوگا، ایک میقات سے بلا احرام گذرنے کا گناہ اور دوسرے میقات کی طرف واپس نہ لوٹنے کا گناہ، ایسے شخص کو دم دینے کے ساتھ توبہ واستغفار بھی کرنا ضروری ہے۔قال الحصکفي: آفاقي یریدُ الحج - وجاوز وقتَہ، ثم أحرم لزمہ دمٌ کما إذا لم یحرم والأفضل عَودہ الخ قال ابن عابدین: قولہ: ”والأفضل عودہ“ ظاہرُ ما في البحر عن المحیط وجوب العود، وبہ صرَّحَ في شرح اللباب (الدر المختار مع رد المحتار: ۵۴۸- ۵۴۹- ۴۵۰/ ۳، کتاب الحج، باب الجنایات، ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت) قال صاحب الغنیة الناسک: آفاقي مسلم مکلف أراد دخول مکة أو الحرم- وجاوز آخر مواقیتہ غیر محرم، ثم أحرم أو لم یحرم، آثم، ولزمہدمٌ، وعلیہ العودُ إلی میقاتہ الذي جَاوَزہ - فإن لم یعد ولا عذر لہ، أثم أخری لترکہ العودّ الواجبَ (غنیة الناسک في بغیة المناسک: ص: ۷۵-۷۶، ط: مکتبہ الشیخ التذکاریة، سہارنبور) وقال ابن عابدین نقلاً عن اللباب: ثم لا فرقَ في وجوب الجزاء بین ما إذا جنی عامدًا أوخاطئًا - عالمًا أوجاہلاً - وقال نقلاً عن الملا علي القاري: وقد ذکر ابن جماعة عن الأئمة الأربعة أنہ إذا ارتکب محظور الإحبارم عامدًا یأثم، ولا تخرجہ الفدیةُ والعزمُ علیہا عن کونہ عاصیًا وقال النووي: وربما ارتکب بعضُ العامة شیئًا من ہذہ المحرمات، وقال: أنا أفدي متوہمًا أنہ بالتزام الفداء یتخلَّص من وبال المعصیة، وذلک خطأ صریح وجہل قبیح، فإنہ یحرم علیہ الفعل - ومن فعل شیئًا مما یحکم بتحریمہ فقد أخرج حَجُّہ من أن یکون مبرورًا ال: (رد المحتار: ۳/۵۰۷، کتاب الحج، باب الجنایات، ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند