• عبادات >> حج وعمرہ

    سوال نمبر: 175811

    عنوان: جھوٹا حلف نامہ داخل کرکے حج کمیٹی سے حج کرنے کا حکم

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں یہ پابندی ہے کہ ایک مرتبہ حج کرنے کے بعد پانچ سال تک حج کیلئے نہیں جاسکتے اور حکومت نے اس سلسلے میں ایک حلف نامہ بھی جاری کیا ہے ، اگر ان پابندیوں کے باوجود کسی صورت سے ہم حج کے لئے چلے جائیں تو گناہ گار ہوں گے ، اور کیا حج ادا ہو جائے گا؟ اور حلف میں غلط بیان کرنا درست ہے ؟ مدلل جواب تحریر فرمائیں۔

    جواب نمبر: 175811

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:405-322/N=5/1441

    (۱- ۳): پاکستان میں ایک بار حج کے بعد آئندہ پانچ سالوں تک دوبارہ حج کی ممانعت ، صرف حج کمیٹی والے حج میں ہوتی ہے، ٹور والے میں نہیں۔ اور ممانعت اس وجہ سے ہوتی ہے کہ باری باری ہر امیدوار کا نمبر آجائے۔ اور اگر کوئی شخص ہر سال حج کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہے تووہ بہ ذریعہ ٹور حج کرے؛ لہٰذا اگر کوئی شخص حج کمیٹی سے ایک بار حج کرکے پانچ سال کے اندر جھوٹا حلف نامہ داخل کرکے حج کمیٹی سے دوبارہ حج کرتا ہے تو وہ بلاشبہ گنہگار ہوگا ، یعنی: حلف نامہ میں جھوٹ لکھنے اور غلط بیانی کرنے کا گناہ ہوگا؛ البتہ شرائط وفرائض اور واجبات کی رعایت کے ساتھ جو حج کیا جائے گا، وہ (کراہت کے ساتھ) ادا ہوجائے گا۔

    عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا کذب العبد تباعد عنہ الملَکُ میلاً من نتن ما جاء بہ الخ (سنن الترمذي، رقم: ۱۹۷۲)،عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: … إیاکم والکذب؛ فإن الکذب یہدي إلی الفجور، وإن الفجور یہدي إلی النار، وما یزال الرجل یکذِبُ ویتحریَّ الکذب حتی یُکتَب عند اللّٰہ کَذَّابًا(الصحیح لمسلم، کتاب البر والصلة، باب قُبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ، ۲:۳۳۶، رقم: ۲۶۰۷ط:بیت الأفکار الدولیة، سنن الترمذي، أبواب البر والصلة، باب ما جاء في الصدق والکذب ۲:۸)، عن أبي ہریرة رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مرَّ علی صبرةٍ من طعام فأدخل یدہ فیہا فنالت أصابعہ بللاً فقال: یا صاحب الطعام ما ہٰذا؟ قال: أصابتہ الماء یا رسول اللّٰہ! قال: أفلا جعلتہ فوق الطعام حتی یراہ الناس، ثم قال: من غش فلیس منا (سنن الترمذي،أبواب البیوع،باب ما جاء في کراہیة الغش في البیوع ۱:۴۵، رقم: ۱۳۱۵)،﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة(معالم التنزیل ۲: ۵۰)، من أخذ مال غیرہ لا علی وجہ إذن الشرع، فقد أکلہ بالباطل (الجامع لأحکام القرآن للقرطبي، ۲:۳۲۳، ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت) ، لافرق بین الکذب بالکتابة أو التکلم (تکملة رد المحتار ۱: ۱۵۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ونظیرہ من حیث الکراھة حج المرأة بغیر محرم فإنہ یصح ولکن مع الکراھة۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند