عبادات >> حج وعمرہ
سوال نمبر: 167166
جواب نمبر: 167166
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:360-371/N=5/1440
احناف کے نزدیک قرآن وسنت کی روشنی میں صحیح یہ ہے کہ قصر مناسک حج میں سے نہیں ہے، یعنی: جو شخص حج میں شرعاً مسافر ہو، وہی قصر کرے گا اور جو مسافر نہ ہو، وہ قصر نہیں کرے گا؛ یعنی: محض حج کی وجہ سے قصر کا حکم نہیں ہوتا؛ اس لیے آپ جب سنہ ۲۰۱۸ء کے حج میں منی روانگی سے ۱۵/ دن پہلے ہی مکہ مکرمہ پہنچ گئے تھے تو آپ منی اور عرفات میں بھی مقیم تھے۔ اور مقیم شخص اگر مسافر کی اقتدا کرے تو وہ ظہر کی نماز ۴/ رکعت ہی ادا کرتا ہے ، امام کی طرح صرف ۲/ رکعت نہیں پڑھ سکتا؛ اس لیے اگر آپ کا امام مسافر تھا، وہ محض حج کی وجہ سے قصر نہیں کررہا تھا تو آپ کی ظہر کی نماز ہوگئی اور آپ نے جو کیا، بالکل صحیح کیا، اور جن لوگوں نے آپ پر نکیر کی، ان کی نکیر غلط تھی اور لا علمی پر مبنی تھی ؛ البتہ آپ کو ظہر کی طرح عصر کی نماز بھی امام ہی کے ساتھ پڑھ لینی چاہیے تھی۔ اور اگر آپ کا امام شرعاً مسافر نہیں تھا، وہ صرف حج کی وجہ سے قصر کررہا تھا تو آپ کی ظہر کی نماز نہیں ہوئی، آپ ظہر کی نماز دوبارہ ادا کریں۔
وأطلق الإمام فشمل المقیم والمسافر؛ لکن لو کان مقیماً کإمام مکة صلی بھم صلاة المقیمین ولا یجوز لہ القصر ولا للحجاج الاقتداء بہ۔ قال الإمام الحلواني: کان الإمام النسفي یقول: العجب من أھل الموقف یتابعون إمام مکة في القصر فأنی یستجاب لھم أو یرجی لھم الخیر وصلاتھم غیر جائزة؟ قال شمس الأیمة: کنت مع أھل الموقف فاعتزلت وصلیت کل صلاة في وقتھا وأوصیت بذلک أصحابي، وقد سمعنا أنہ یتکلف ویخرج مسیرة سفر ثم یأتي عرفات، فلو کان ھکذا فالقصر جائز وإلا لا، فیجب الاحتیاط اھ ملخصاً من التاترخانیة عن المحیط (رد المحتار، کتاب الحج، ۳:۵۲۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند