• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 69744

    عنوان: احادیث شاذہ کا صحیحین میں ہونا اور محدثین کا اسے صحیح یا ضعیف کا درجہ دینے میں اختلاف۔

    سوال: حضرت، میں اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کے صحیح حدیث اور حسن درجہ کی حدیث کے الفاظ حرف بہ حرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں اور ان میں ایک لفظ کا بھی ہیر پھیر نہیں ہے ۔حدیث کے الفاظ اس طرح محفوظ ہیں جس طرح قرآن ۔ جب میری نظر سے احادیث شازہ کا مضمون گزرا تو شدید پریشانی ہوئی اور یہ شک پیدا ہوا کہ کسی حدیث میں با لفرض اعداد کا ذکر ہو اور اسی طرح کی ایک اور حدیث میں اس کے مخالف اعداد کا ذکر ہو تو کون سی حدیث ان حضرت کے الفاظ ہوں گے اس کی مثال بخاری میں ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اونٹ کا قصہ ہے کہ انہوں نے اپنا اونٹ بیچنے میں کیا ثمن لیا ۔پس بعض روایات میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک اوقیہ میں اونٹ خریدا اور بعض روایات نقل کرتے ہیں کہ دو سو درہم میں اونٹ خریدا اور بعض چار اوقیہ اور بعض 20 دینار ملاحضہ ہو بخاری ( 1/375) اور بعض حدیث میں چار دینار کا زکر کرتے ہیں ۔ان ساری روایات میں کون سی بات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جبکہ ساری روایات صحیح بخاری میں درج ہیں اور صحیح کے درجہ میں ہیں شاید ۔ اس طرح کی بہت ساری صحیح احادیث نظر سے گزری ہیں ۔

    جواب نمبر: 69744

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1342-1359/N37=1/1438 تمام صحیح اور حسن درجے کی احادیث کے الفاظ کوحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول سمجھنا اور یہ سجھنا کہ یہ بعینہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں ، ان میں کوئی لفظ تبدیل نہیں ہوا اور تمام احادیث کے الفاظ قرآن کریم کی طرح محفوظ ہیں، صحیح نہیں؛ کیوں کہ راویان حدیث معنی ومفہوم کی رعایت کے ساتھ روایت بالمعنی بھی کرتے تھے اگرچہ بعض احادیث میں روایت بالمعنی یا حافظہ کی کمی وغیرہ کی وجہ سے روایات میں اختلاف بھی ہوگیا ہے، اگر آپ روایت بالمعنی کے متعلق اصول حدیث کی کتابوں میں تفصیلی بحث پڑھ لیں گے تو حضرت جابر کی روایت کے متعلق یا اس طرح کی دیگر احادیث کے متعلق آپ کو جو اشکال ہورہا ہے یا ہوسکتا ہے ،وہ انشاء اللہ رفع ہوجائے۔ وأما الروایة بالمعنی فالخلاف فیہا شھیر والأکثرون علی جوازہ، ومن أقوی حججھم الإجماع علی جواز شرح الشریعة للعجم بلسانھم للعارف بہ فإذا جاز الإبدال بلغة أخری فجوازہ باللغة العربیة أولی،…… ، قال القاضي عیاض: ینبغي سد باب الروایة بالمعنی لئلا یتسلط من لا یحسن ممن یظن أنہ یحسن کما وقع لکثیر من الرواة قدیماً وحدیثاً، واللہ الموفق اھ ، وقال النووي: إنہ قال جمھور السلف والخلف -قال السیوطي: منھم الأئمة الأربعة-: تجوز الروایة بالمعنی فی جمیعہ إذا قطع بأداء المعنی ۔ قال السیوطي في شرحہ: لأن ذلک الذي ھو الذي تشھد بہ أحوال الصحابة والسلف ویدل علیہ روایتھم للقصة الواحدة بألفاظ مختلفة الخ (نزھة النظر، ص ۲۹۲)، قال- القاضي عیاض-: سبب الاختلاف أنھم رووا بالمعنی الخ (فتح الباري، کتاب الشروط، باب إذا اشترط البائع ظھر الدابة إلی مکان مسمی جاز ۵: ۳۹۴، ط: دار السلام الریاض)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند