• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 41274

    عنوان: بدعات و رسومات

    سوال: ما حل اللہ فی کتابہ فہو حلال وما حرم فہو حرام وما سکت عنہ فہو عفو کیا یہ روایت اطعمہ کے ساتھ خاص ہے یا شریعت کا عام اصول ہے دوسرا یہ کہ وما سکت عنہ فہو عفو سے کیا مراد ہے ایک صاحب فرماتے ہیں کہ اس سے وہ افعال مراد ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوئے ہوں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی ہوں کیا یہ صحیح ہے؟

    جواب نمبر: 41274

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 963-963/N=11/1433 (۱) حدیث کے الفاظ عام ہیں اس لیے حدیث میں مذکور ضابطہ شریعت کا عام اصول ہے، اطعمہ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ (۲) ما سکت عنہ فہو عفو کا مطلب یہ ہے کہ جن امور کے متعلق اللہ تعالی نے صراحتاً یا دلالتاً کوئی حکم ارشاد نہیں فرمایا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے متعلق سکوت اختیار فرمایا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ کی طرف سے بہت سی چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، جیسا مشکاة شریف (ص: ۲۹) کی روایات میں ہے اور ان کی حرمت پر کوئی ایسی دلیل بھی قائم نہیں جس کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے معتبر قرار دیا ہو تو وہ مباح ہیں، ان کے استعمال کی گنجائش ہے، اسی سے فقہاء نے یہ ضابطہ مستنبط کیا ہے: الأصل في الأشیاء الإباحة: اشیاء میں اصل اباحت ہے یعنی جن چیزوں کے متعلق حرمت کی کوئی دلیل شرعی نہ ہو انھیں مباح قرار دیا جائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند