• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 38392

    عنوان: كیا زمین مچھلی کے اوپر ہے؟

    سوال: میرا یہ سوال ہے کہ میں نے ایک روایت میں پڑھا ہے کہ زمین کسی مچھلی کے اوپر ہے، کیا یہ بات صحیح ہے اور جن روایت میں یہ بات آئِی ہے اس کی صحت کیا ہے؟

    جواب نمبر: 38392

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 425-472/N=7/1433 (۱) یہ بات صحیح نہیں، واقع اور حقیقت کے خلاف ہے۔ (۲) جس روایت میں یہ بات آئی ہے کہ وہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اور یہ ان کا قول ہے جسے مختلف محدثین جیسے عبد الرزاق، فریابی، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر طبری، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، حاکم، ابن مردویہ، خطیب بغدادی اور ضیاء الدین مقدسی وغیرہ نے اپنی اپنی کتابوں میں سند کے ساتھ ذکر کیا ہے (کذا في الدر المنثور: ۱۴/۶۱۷ سورہٴ نٓ، ط: مرکز ہجر للبحوث والدراسات العربیة والإسلامیة) اور حاکم نے یہ بھی فرمایا ہے: ہذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ اور ذہبی نے تلخیص میں حاکم کی موافقت کی ہے کذا في المستدرک للحاکم (کتاب التفسیر تفسیر سورہٴ نٓ والقلم: ۲/۵۸۶، رقم الحدیث: ۳۸۹۷، ط: دارالحرمین للطباعة والنشر والتوزیع) اور اسے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہٴ قلم میں وارد لفظ ”ن“ کی تفسیر میں ذکر کیا ہے، جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے اور یہ رائے بعض دیگر مفسرین کی بھی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: ۸/۱۸۵، معالم التنزیل: ۸/۱۸۵) لیکن یہ مضمون کسی آیت سے یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً کسی بھی روایت سے ثابت نہیں بلکہ محققین نے اسے اسرائیلیات میں سے قرار دیا ہے: قال أبو عبد الرحمن عصام الدین الضبابطي في جامع الأحادیث القدسیة (کتاب التوحید والإیمان: ۱/۱۵۳، رقم الحدیث: ۷۸، ط: دارالدیان للتراث القاہرہ): ․․․ أما شطرہ الثاني فلم أر احدًا ذکرہ مرفوعا، وظني بہ أنہ من الإسرائیلیات التي رواہا ابن عباس عن بني إسرائیل إھ وقال الشیخ محمد أبو شہبہ في کتابہ: ”الإسرائیلیات والموضوعات في کتب التفسیر (ص:۳۰۵): والظاہر أنہ افتراء علیہ أو ہو من الإسرائیلیات ألصق بہ إھ وقال الآلوسي فی روح المعاني (۲۹: ۲۷، ط: مکتبہ إمدادیہ ملتان، پاکستان): وفي البحر لعلہ لا یصح شيء من ذلک أي: من جمیع ما ذکر في أن ما عدا کونہ اسما من أسماء الحروف وکأنہ إن کان مطلعا علی الروایات التي ذکرناہا لم یعتبر تصحیح الحاکم في ماروي أولاً عن ابن عباس ولا کون أحد رواتہ الضیاء في المختارة التي ہي في الاعتبار قریبة من الصحاح ولا کثرة روایہ عنہ وہو الذي یغلب علی الظن لکثرة الاختلاف في ما روي عنہ في تعیین المراد بہ․․․ إھ اور علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی ”ن“ کی اس تفسیر کو قیل سے نقل کیا ہے جو بظاہر اس کی مرجوحیت پر دال ہے۔ ابن کثیر: ۸/۱۸۴-۱۸۵) الحاصل سندا یہ روایت اگرچہ بعض علماء کے نزدیک صحیح ہے لیکن متن کے لحاظ سے اس کا مضمون قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث نبوی سے ثابت نہیں؛ بلکہ محققین کے نزدیک یہ مضمون اسرائیلی روایات سے لیا ہوا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند