• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 163401

    عنوان: سنت کی تعریف اور حدیث وسنت میں فرق

    سوال: مفتی صاحب، امید ہے آپ خیر و عافیت سے ہوں گے حضرت مجھے پوچھنا یہ ہے کہ سنت کی تعریف کیا ہے اور حدیث اور سنت میں بنیادی فرق کیا ہے ۔ برائے کرم عام فہم انداز میں جواب عنایت فرمائے خیرا کثیرا۔

    جواب نمبر: 163401

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1115-167T/N=1/1440

    مختلف فنون واصطلاحات میں سنت کے مختلف معانی ہیں، جو حسب ذیل ہیں:

    الف: فقہ میں احناف کے نزدیک سنت کا اطلاق اس حکم پر ہوتا ہے جو فرض اور واجب کے مقابلہ میں ہو۔اور شوافع وغیرہ کے نزدیک وہ حکم ہے جو فرض کے مقابلہ میں ہو؛ کیوں کہ ان حضرات کے نزدیک واجب کا کوئی درجہ نہیں ہے۔

    ب:کبھی سنت کا اطلاق بدعت کے مقابل میں ہوتا ہے، اس وقت اس کے مصداق میں کل شریعت داخل ہوگی۔

    ج: اصولیین کے نزدیک سنت کا اطلاق حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر شدہ ان اقوال وافعال پر ہوتا ہے جو تشریع کا پہلو رکھتے ہوں۔

    د: عام محدثین کی اصطلاح میں حدیث اور سنت دونوں مترادف (ہم معنی) ہیں، یعنی: حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہر چیز حدیث اور سنت ہے خواہ وہ آپ کا قول، فعل یا تقریر ہو، یا آپ کے اختیاری یا غیر اختیاری اوصاف ہوں، نیز نبوت سے پہلے کے احوال ہوں یا بعد کے، یہ سب حدیث و سنت ہیں۔

    قال أبو بکر رحمہ اللہ: سنة النبي صلی اللہ علیہ وسلم ما فعلہ أو قالہ لیقتدی بہ فیہ ویداوم علیہ، وھو مأخوذ من سنن الطریق، وھي جادتہ التي یکون المرور فیھا (الفصول في أصول الفقہ، ۳: ۲۳۵)، قال أبو بکر: وأحکام السنة علی ثلاثة أنحاء: فرض وواجب وندب، ولیس یکاد یطلق علی المباح لفظ السنة؛ لأنا قد بینا أن معنی السنة أن یفعل أو یقول لیقتدی بہ فیہ ویداوم علیہ ویستحق بہ الثواب وذلک معدوم في قسم المباح۔(المصدر السابق،ص: ۲۳۶)، (وفي الأصول: قولہ علیہ السلام وفعلہ وتقریرہ) مما لیس من الأمور الطبیعیة، وکأنہ لم یذکرہ للعلم بہ (التقریر والتحبیر، ۲: ۲۸۸، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، (وفي) اصطلاح (الأصول: قولہ) علیہ السلام (وفعلہ وتقریرہ) مما لیس من الأمور الطبیعیة، لم یذکر ھذا القید للعلم بأنھا من الأدلة الشرعیة، والأمور المذکورة لیست منھا( تیسیر التحریر، ۳: ۱۹، ۲۰)، و-السنة- فی الأدلة ما صدر عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ سلم من غیر القرآن من قول أو فعل أو تقریر، وھذا ھو المقصود بالبحث عنہ في ھذا العلم (إرشاد الفحول للشوکاني، ص: ۱۸۶)، وقد تطلق علی ما صدر عن الرسول من الأدلة الشرعیة مما لیس بمتلو ولا ھو معجز ولا داخل في المعجز، وھذا النوع ھو المقصود بالبیان ھھنا، ویدخل في ذلک أقوال النبي صلی اللہ علیہ وسلم وأفعالہ وتقاریرہ (الإحکام في أصول الأحکام للآمدي، ۱: ۲۲۷، ط: دار الصمیعي للنشر والتوزیع، الریاض)، قال الأسنوي: ”وفی الاصطلاح تطلق علی ما یقابل الفرض وعلی ما صدر من النبي صلی اللہ علیہ وسلم من الأفعال والأقوال التي لیست للإعجاز، وھذا ھو المراد ھنا“:أقول: الأول اصطلاح الفقہاء من الشافعیة والمالکیة والحنابلة، وأما اصطلاح الحنفیة فھي ما قابل الفرض والواجب، وأما الثاني فھو اصطلاح الأصولیین وھو المراد ھنا؛ لأن الأصولیین إنما یبحثون عن الأدلة، والدلیل في ھذا لا في الأول؛ بل ھو حکم أخذ من فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم ولو واظب علیہ ولم یتوعد علی ترکہ (نھایة السول في شرح منھاج الأصول، ۳: ۵)، وانظر أفعال الرسول للأشقر (۱:۱۸- ۲۰ ) والوضع في الحدیث (ص: ۱۴- ۱۸) أیضاً۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند