• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 158386

    عنوان: عمامہ کی شرعی حیثیت

    سوال: محترم مفتی صاحب! مجھے عمامہ کے متعلق بہت دنوں سے ایک مسئلہ پوچھنا ہے تھا فقہ حنفی کی رو سے عمامہ کا درجہ کیا ہے ؟ ہمارے اکابر علماء دیوبند کے یہاں اس کا رواج تھا یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ آج کے کبار علماء دیوبند کے یہاں اس کا رواج کیوں نہیں ہے ؟ سنن زوائد اور سنن ھدی کی تقسیم اور ان پر عمل کرنے کا حکم بتلائیں۔ براہ کرم ہر سسوال کا اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو ضرور جواب لکھ دیں۔

    جواب نمبر: 158386

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 490-424/sd=5/1439

    (۱)عمامہ پہننا مسنون ہے ؛ لیکن یہ سنن عادیہ میں سے ہے ،یعنی اس کا اختیار کرنا بہتر ہے اور اس کے ترک پر نکیر کرنا صحیح نہیں ہے ؛ لہٰذا اگر کوئی شخص ٹوپی اوڑھتا ہے ، تو اس پر نکیر نہیں کی جاسکتی، ہمارے اَکابر رحمہم اللہ میں سے اکثر حضرات عمامہ کا استعمال فرماتے تھے اور اِس وقت بھی اکثر اکابر عمامہ استعمال فرماتے ہیں، بعض مستقل پہنتے ہیں اور بعض کبھی کبھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی صرف ٹوپی کا پہننا ثابت ہے اور جو حضرات زیادہ تر ٹوپی استعمال فرماتے ہیں، وہ بھی عمامہ کی مخالفت نہیں فرماتے ، عمامہ کی ترغیب دینے کی اِجازت ہے ؛ لیکن اُسے واجب یا لازمی قرار دینا اور تشدد اختیار کرنااور جو عمامہ نہ پہنے اُس کی تحقیر کرنا صحیح نہیں ہے ۔ (۲)سنت کی دو قسمیں ہیں: (۱) سننِ ہدیٰ (۲) سنن زوائد۔ سننِ ہدیٰ یعنی عبادات وغیرہ سے متعلق موٴکدہ سنتوں کا ترک موجب موٴاخذہ ہے اورسننِ زوائد یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس وغیرہ سے متعلق سنتیں استحباب کے درجہ کی ہیں، اُن کو اختیار کرنا بہتر ہے ؛ لیکن اُن کے ترک پر نکیر نہیں کی جائے گی۔

    السنة نوعان: سنة الہدیٰ وترکہا یوجب إساء ة وکراہیة کالجماعة والأذان والإقامة ونحوہا وسنة الزوائد وترکہا لا یوجب ذٰلک کسیر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی لباسہ وقیامہ وقعودہ۔ (شامی، کتاب الطہارة / مطلب فی السنة وتعریفہا:۱/۲۱۸زکریا) وکان یلبسہا ویلبس تحتہا القلنسوة، وکان یلبس القلنسوة بغیر عمامة ویلبس العمامة بغیر قلنسوة۔ (زاد المعاد ۱/۱۳۵) 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند