• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 157007

    عنوان: بچے کے کان میں اذان دینے کا ثبوت

    سوال: بچے کی پیدائش کے وقت اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے ، کیا یہ عمل حدیث سے ثابت ہے ؟ اس کا مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں۔ خیرا

    جواب نمبر: 157007

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:366-27T/L=3/1439

    بچے/ بچی کی ولادت پر اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا مسنون ومستحب ہے، جمہور ائمہ اس کے قائل ہیں، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسنکی ولادت پر ان کے کان میں اذان کہی تھی، علامہ ابن قیمنے ”تحفة المودود بأحکام المولود“ میں حضرت ابورافع، حضرت حسناور حضرت عبد اللہ بن عباسسے مروی روایات کی روشنی میں نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنے کے استحباب کو ثابت فرمایا ہے۔دلائل درج ذیل ہیں: عن ابي رافع۔ رضی اللّٰہ عنہ۔ أن النبی ﷺ أذن فی أذن الحسن بن علی یوم ولد وأقام فی أذنہ الیسری(سنن الترمذي ۱/۲۷۸/ابواب الاضاحی/ باب الاذان فی أذن المولود)

     اور مصنف عبد الرزاق (۴: ۳۳۶) میں ہے: حضرت عمر بن عبدا لعزیز رحمہ اللہ کے یہاں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو آپ اسے لے کر اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہتے اوراسی جگہ اس کا کوئی نام رکھتے۔ عن أبي رافع عن أبیہ -رضي اللّٰہ عنہ- قال: رأیتُ رسولَ اللّٰہ- صلی اللّٰہ علیہ وسلّم- أذَّن في أذن الحسن بن عليّ حین ولدتہ فاطمة بالصلاة․قال الملا علي القاري: ہٰذا یدلّ علی سنّیة الأذان في أذن المولود، وفي شرح السنة: رُوِيَ أن عمر بن عبد العزیز رضي اللّٰہ عنہ کان یؤذّن في الیمنیٰ ویقیم في الیسریٰ إذا وُلِدَ الصّبيّ․ (مرقاة المفاتیح: ۸/۱۵۹باب العقیقة/الفصل الثانی، ط،: امدادیہ پاکستان) وفی تحفة الأحوذي:قَوْلُہُ (أَذَّنَ فِی أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ حِینَ وَلَدَتْہُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ) أَیْ أَذَّنَ بِآذَانِ الصَّلَاة، ِ وَفِیہِ دَلِیلٌ عَلَی سُنِّیَّةِ الْأَذَانِ فی أذن المولود․ قال القاری: وَفِی شَرْحِ السُّنَّةِ رُوِیَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَانَ یُؤَذِّنُ فِی الْیُمْنَی وَیُقِیمُ فِی الْیُسْرَی إِذَا وُلِدَ الصَّبِیُّ، قَالَ وَقَدْ جَاءَ فِی مُسْنَدِ أَبِی یَعْلَی الْمَوْصِلِیِّ عَنِ الْحُسَیْنِ مَرْفُوعًا مَنْ وُلِدَ لَہُ وَلَدٌ فَأَذَّنَ فِی أُذُنِہِ الْیُمْنَی وَأَقَامَ فِی أُذُنِہِ الْیُسْرَی لَمْ تَضُرَّہُ أُمُّ الصِّبْیَانِ، کَذَا فِی الْجَامِعِ الصغیر للسیوطی انتہی کلام القاری: قُلْتُ قَالَ الْمُنَاوِیُّ فِی شَرْحِ الْجَامِعِ الصَّغِیر: ِ إِسْنَادُہُ ضَعِیفٌ انْتَہَی وَقَالَ الْحَافِظُ فِی التَّلْخِیصِ: حَدِیثُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ أَنَّہُ کَانَ إِذَا وُلِدَ لَہُ وَلَدٌ أَذَّنَ فِی أُذُنِہِ الْیُمْنَی وَأَقَامَ فِی أُذُنِہِ الْیُسْرَی لَمْ أَرَہُ عنہ مسنداً وقد ذکرہ ابن المنذر عنہ، وقد رُوِیَ مرفوعاً، أخرجہ ابن السُّنِّیِّ مِنْ حَدِیثِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ بِلَفْظِ ”مَنْ وُلِدَ لَہُ مَوْلُودٌ فَأَذَّنَ فِی أُذُنِہِ الْیُمْنَی وَأَقَامَ فِی الْیُسْرَی لَمْ تَضُرَّہُ أُمُّ الصِّبْیَانِ“ (وَأُمُّ الصِّبْیَانِ ہِیَ التَّابِعَةُ مِنَ الْجِنِّ) انتہی․․․قولہ: (والعمل علیہ) أی علی حدیث أبی رافع فی التاذین فی أذن المولودعقیب الولادة، فان قلت کیف العمل علیہ؟ وہو ضعیف؛ لأنّ فی سندہ عاصم بن عبیداللہ کما عرفت، قلت: نعم ہو ضعیف؛ لکنّہ یعتضد بحدیث الحسین ابن علیّ الذی رواہ أبو یعلی الموصلی وابن السّنِّی․(تحفة الاحوذی: ۵: ۸۹۔ ۹۰باب الأذان فی أذن المولود/ ط: دارالکتب العلمیہ بیروت)

    قال فی تحفة المودود بأحکام المولود:

    وَفِی ہَذَا الْبَاب أَحَادِیث، أَحدہَا مَا رَوَاہُ أَبُو عبد اللّٰہ الْحَاکِم حَدثنَا أَبُو جَعْفَر مُحَمَّد بن دُحَیْم، حَدّثنَا أَحْمد بن حَازِم بن أبی غرزة، حَدثنَا عبید اللّٰہ بن مُوسَی، أَنا سُفْیَان بن سعید الثَّوْریّ، عَن عَاصِم بن عبید اللہ، أَخْبرنِی عبید اللہ بن أبی رَافع، عَن أبی رَافع، قَال: َ رَأَیْت رَسُول اللّٰہ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم أذّن فِی أذن الْحسن بن عَلیّ حِین وَلدتہ فَاطِمَة (رَوَاہُ أَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِیّ وَقَالَ حَدِیث صَحِیح) الثَّانِی: مَا رَوَاہُ الْبَیْہَقِیّ فِی الشّعب من حَدِیث الْحسن بن عَلیّ عَن النَّبِیّ صلّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسلم قَالَ: من وُلِدَ لَہُ مَوْلُود فَأذّن فِی أُذُنہ الْیُمْنَی وَأقَام فِی أُذُنہ الْیُسْرَی رفعت عَنہُ أم الصّبیان․ وَالثَّالِث: مَا رَوَّاہُ أَیْضاً من حَدِیث أبی سعیدٍ عَن ابْن عَبَّاسٍ أَنّ النَّبِی صلّی اللہ عَلَیْہِ وَسلم أذّن فِی أذن الْحسن بن عَلیّ یَوْم ولد وَأقَام فِی أُذُنہ الْیُسْرَی․ قَال: َ وَفِی إسنادہما ضُعف․ (تحفة المودود بأحکام المولودلابن قیم الجوزیة ۱/۳۱الباب الرابع فی استحباب التاذین فی أذنہ، ط: مکتبہ دارالبیان/دمشق)

    ذَہَبَ جُمْہُورُ الْفُقَہَاءِ إِلَی أَنَّہُ یُسَنُّ الأَْذَانُ فِی الأُْذُنِ الْیُمْنَی لِلْمَوْلُودِ، وَالإِْقَامَةُ فِی الْیُسْرَیٰ․ (الموسوعة الفقہیة: ۴۵/۲۹۵، الأذان فی الأذن الیمنی للمولود، ط: وزارة الأوقاف والشئون الاسلامیہ)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند