• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 152735

    عنوان: کیا کھانے میں پہلی دو یا تین انگلیوں کا استعمال کرنا سنت ہے؟

    سوال: (۱) کیا کھانے میں پہلی دو یا تین انگلیوں کا استعمال کرنا سنت ہے؟ (۲) کیا بعد میں میٹھا کھانا سنت ہے؟ (۳) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کب میٹھا کھاتے تھے؟ (۴) کھانا کھانے کے درمیان یا کھانے کے بعد زبان سے انگلیوں کو صاف کرنے کا سنت طریقہ کیا ہے؟کیا اس برے میں کوئی خاص حکم ہے؟ میں نے سنا ہے کہ پہلے شہادت کی انگلی، پھر انگوٹھی والی انگولی اور پھر آخر میں سب سے چھوٹی انگلی کو صاف کرنے کا حکم ہے؟

    جواب نمبر: 152735

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1082-1047/sd=11/1438

    (۱) عام حالات میں جس چیز کو تین انگلیوں کھانا آسان ہو، اُس کو تین انگلیوں سے کھانا سنت ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم عموما تین انگلیوں ( انگوٹھا، شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی ) سے کھانا تناول فرماتے تھے ؛ لیکن ایسی چیز جس کا تین انگلیوں سے کھانا مشکل ہو، اُس میں چوتھی یا پانچویں انگلی شامل کرنا خلاف سنت نہیں ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ انگلی سے بھی کھانا ثابت ہے ۔ وعن کعب بن مالک - رضی اللہ عنہ - قال: کان رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - یأکل بثلاثة أصابع، ویلعق یدہ قبل أن یمسحہا . رواہ مسلم. (وعن کعب بن مالک - رضی اللہ تعالی عنہ - قال: کان رسول اللہ یأکل بثلاثة أصابع ) ، أی الإبہام والمسبحة والوسطی. قال النووی: الأکل بالثلاث سنة، فلا یضم إلیہا الرابعة والخامسة إلا لضرورة (ویلعق) : بفتح العین أی یلحس (یدہ) : أی أصابعہا، ویقدم الوسطی ثم ما یلیہا ثم الإبہام قبل أن یمسحہا) أی بالمندیل قبل اللعق، کما ہو عادة الجبابرة. قال النووی: من سنن الأکل لعق الید محافظة علی برکة الطعام وتنظیفا لہا. (رواہ مسلم) . وکذا أحمد وأبو داود. وفی حدیث أنس، رواہ أحمد، ومسلم والثلاثة: " کان إذا أکل طعاما لعق أصابعہ الثلاثة ". ولفظ الترمذی عن کعب بن مالک: کان رسول اللہ یأکل بأصابعہ الثلاثة ویلعقہن. وروی الطبرانی عن عامر بن ربیعة بلفظ: " کان یأکل بثلاث أصابع ویستعین بالرابعة ". وفی حدیث مرسل: " أنہ - صلی اللہ علیہ وسلم - کان إذا أکل بخمس، ولعلہ محمول علی المائع، أو علی القلیل النادر لبیان الجواز، فإن عادتہ فی أکثر الأوقات ہو الأکل بثلاث أصابع ولعقہا بعد الفراغ، وإنما اقتصر علی الثلاثة ; لأنہ الأنفع، إذ الأکل بإصبع واحدة مع أنہ فعل المتکبرین لا یستلذ بہ الآکل، ولا یستمرء بہ لضعف ما ینالہ منہ کل مرة، فہو کمن أخذ حقہ حبة حبة، وبالأصبعین مع أنہ فعل الشیاطین لیس فیہ استلذاذ کامل، مع أنہ یفوت الفردیة، واللہ وتر یحب الوتر، وبالخمس مع أنہ فعل الحریصین یوجب ازدحام الطعام علی مجراہ من العادة، وربما استد مجراہ فأوجب الموت فورا وفجأة. ( مرقاة المفاتیح : رقم : ۴۱۶۴، کتاب الأطعمة، تکملة فتح الملہم : ۲۳/۴، ط: أشرفیة، دیوبند )

    (۲، ۳) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھا کھانا پسند تھا؛ لیکن کھانے کے بعد میٹھا کھانے کی صراحت نہیں ملی، بظاہر یہ بے اصل بات ہے ،اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زیادہ تر کھانا یہی ہوتا تھا کہ کھجور کھالی ، پانی پی لیا، کئی کئی وقت کھجور کی بھی نوبت نہیں آتی تھی، شکم مبارک پر پتھر باندھتے تھے ، مہینہ گذر جاتا تھا اور گھر میں آگ نہیں سلگتی تھی۔ وعن عائشة رضی اللہ عنہا قالت: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یحب الحلواء والعسل. ( مشکاة المصابیح : رقم : ۴۱۸۲ ) وعنہا قالت: کان یأتی علینا الشہر ما نوقد فیہ نارا إنما ہو التمر والماء۔ ( مشکاة : رقم : ۴۱ ۹۲ ) عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّہَا کَانَتْ تَقُولُ: وَاللہِ یَا ابْنَ أُخْتِی إِنْ کُنَّا لَنَنْظُرُ إِلَی الْہِلَالِ، ثُمَّ الْہِلَالِ، ثُمَّ الْہِلَالِ، ثَلَاثَةَ أَہِلَّةٍ فِی شَہْرَیْنِ، وَمَا أُوقِدَ فِی أَبْیَاتِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَارٌ، قَالَ: قُلْتُ: یَا خَالَةُ فَمَا کَانَ یُعَیِّشُکُمْ؟ قَالَتْ: الْأَسْوَدَانِ التَّمْرُ وَالْمَاءُ، إِلَّا أَنَّہُ قَدْ کَانَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جِیرَانٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَکَانَتْ لَہُمْ مَنَائِحُ، فَکَانُوا یُرْسِلُونَ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ أَلْبَانِہَا، فَیَسْقِینَاہُ۔ ( مسلم: رقم : ۲۹۷۲ )

    (۴) داہنے ہاتھ کی تین انگلیوں سے کھانا مسنون ہے اور کھانے فراغت پر اولا درمیانی انگلی، پھر شہادت کی انگلی اور آخر میں انگھوٹے کو چاٹنا مسنون ہے ۔ نْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْکُلُ بِأَصَابِعِہِ الثَّلَاثِ: بِالْإِبْہَامِ، وَالَّتِی تَلِیہَا، وَالْوُسْطَی، ثُمَّ رَأَیْتُہُ یَلْعَقُ أَصَابِعَہُ الثَّلَاثَ قَبْلَ أَنْ یَمْسَحَہَا، وَیَلْعَقُ الْوُسْطَی، ثُمَّ الَّتِی تَلِیہَا، ثُمَّ الْإِبْہَامَ.)المعجم الأوسط : ۱۶۴۹ )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند