• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 151969

    عنوان: بلند مقام سے اذان دینا

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرح متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ علی گڑھ میں ایک تین منزلہ بڑی مسجد ہے اس میں مائک سے اذان ہوتی ہے ۔ مئذنہ (اذان گاہ) کے بارے میں یہاں کے نمازیوں میں یہ اختلاف پیدا ہو گیا ہے کہ اذان کہاں سے دلوائی جائے ؟ ۱۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اذان بلند مقام سے ہونی چاہئے یہ سلف صالحین کا طریقہ ہے ،اس لئے مسجد کے زینہ میں سترہ سیڑھی کے اوپر بنے ہوئے پلیٹ فارم سے ہونی چاہئے یہ اولیٰ ہے ۔ ۲۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بلند مقام مقصود نہیں ہے ذریعہ ہے ، اس سے بہتر ذریعہ ملنے پر اسے چھوڑا جا سکتا ہے ، جیسے کہ ہمارے سلف صالحین اولین سفر حج اونٹوں کے ذریعہ سے کرتے تھے ، اب صالحین زمانہ ہٰذا موٹر کاروں یا ہوائی جہازوں سے کرتے ہیں، اس کو خلاف سنت یا خلاف اولیٰ نہیں سمجھا جاتا ہے ، اسی طرح بلند مقام سے اذان دینے کی بات مائک کے زمانہ سے پہلے کی ہے ، مائک کے ذریعہ اذان دینے میں تو سترہ سیڑھی کے اوپر سے دی جائے یا نیچے سے دونوں برابر ہیں۔ لہذا، اوپر جانے کی زحمت چھوڑی جا سکتی ہے ۔ مسجد کے مناروں یا بلند دیواروں پر نصب (ہارن) لاوڈ اسپیکر بلند مقام کے قائم مقام و نعم البدل ہیں۔ ایسے نعم البدل کی موجودگی میں موذن کو اوپر چڑھانا تکلف لاطائل و فعل عبث ہے ۔ لہٰذا مسجد کے زینے کے نیچے موجود کمرے سے اذان دلوانی چاہئے ۔ جس کا تالا کھول کر مائک کا بٹن کھول کر پھر تالا لگا کر موذن کو اذان دے نے کے لئے اوپر جانا پڑتا ہے ، اسی طرح اذان دینے کے بعد نیچے اتر کر مائک کا بٹن اور کمرا بند کرنا پڑتا ہے ۔ من فضلک قلب الصفحة الاخریٰ اس طرح سے پہلے گروہ کا نظریہ بعض زحمتوں کو متضمن ہے ۔ دوسرے گروہ کے نظریہ میں یہ بات نہیں ہے ۔ دوسرے گروہ کے نظریہ کے مطابق مسجد کے زینہ کے نیچے گراؤنڈ فلور میں موجود کمرے سے اذان دینے کی صورت میں شریعت مطہرہ کو مطلوب و مسنون اذان کا تحقق ہوگا یا نہیں؟ خلاف اولیٰ تو نہیں ہوگا؟ صراحت فرمائیں حضرت مفتی صاحب اب آپ سے درخواست ہے کہ مذکورہ بالا دونوں جماعتوں میں سے کون سی جماعت کا نظریہ علم دین و عقل سلیم کی روشنی میں زیادہ بہتر ہے ۔ رہنمائی فرما کر ممنون فرمائیں۔

    جواب نمبر: 151969

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 852-741/D=9/1438

    بلند مقام سے اذان کہنے کی بات فقہا نے لکھی ہے چنانچہ درمختار میں ہے: ”في مکان عال“ ۔ اور دورِ نبوی سے یہی متوارث ہے، لیکن مکانِ عالی سے اذان دینے کا جو مقصد ہے وہ جب کمرے میں رکھے مائک سے اذان دینے میں پورا ہو جاتا ہے تو اب مکانِ عالی کو اختیار کرنا ضروری نہیں، جب کہ وہاں سے مائک کا انتظام کرنا دشوار بھی ہے۔ حاصل یہ کہ بلند مقام سے مقصود زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اذان کی آواز سنانا اور آواز کو بلند کرنا ہے، چنانچہ جب یہ مقصد کسی اور ذریعے سے حاصل ہو جاتا ہے تو اس کے بعد بلند مقام پہ چڑھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی؛ چنانچہ فقہا نے اس کی صراحت فرمادی ہے کہ خود اپنے لیے یا مخصوص جماعت کے لیے موضعِ عالی سے اذان دینے کی ضرورت نہیں؛ کیونکہ مقصد (آواز پہنچانا) حاصل ہے، اسی طرح یہاں بھی۔ فالظاہر أنہ لایُسَنّ لہ المکان العالي لعدم الحاجة ۔ (ردالمختار: ۲/۴۸) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند