• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 151342

    عنوان: کہ کونسا لباس سنت لباس ہے ؟

    سوال: سنت لباس کے متعلق وضاحت فرماویں کہ کونسا لباس سنت لباس ہے ؟ میں نے سنا ہے کہ کرتا جو تریزوں والا ہوتا ہے جو کرتا کے اگلے اور پچھلے حصہ کو تین تین کپڑوں کو آپس میں سی کر بنایا جاتا ہے سنت ہے ، اور اکثر صلحاء کو بھی ایسا لباس استعمال کرتے دیکھا گیا ہے ۔

    جواب نمبر: 151342

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 922-1016/N=10/1438

    احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس مبارک کے متعلق جو تفصیلات آئی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے لباس میں مختلف چیزیں استعمال فرمائی ہیں، جیسے: چادریں، کرتا، جبہ، لنگی وغیرہ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ کے لیے کوئی خاص لباس مقرر نہ تھا( امداد المفتین، ص۸۱۰، ۸۱۱، سوال: ۸۷۷، مطبوعہ:دار الاشاعت کراچی ) ، اور اُس زمانہ میں عربوں کا لباس یہی سب چیزیں تھیں؛ اسی لیے علما نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کے متعلق جو تفصیلات مروی ہیں، وہ سنن عادیہ کی قبیل سے ہیں، یعنی: اگر کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وہ لباس پہنتا ہے وہ ثواب کا مستحق ہوگا اور نہ پہننے والے کو کوئی گناہ نہ ہوگا؛ البتہ قرآن وحدیث میں لباس کے متعلق جو اصولی ہدایات آئی ہیں، ان کی رعایت کے ساتھ ہر زمانے کے اہل حق علما وصلحا جو لباس استعمال فرماتے ہیں، وہ بھی مسنون وشرعی لباس کہلائیں گے؛ کیوں کہ وہ قرآن وحدیث کی ہدایات کے مطابق ہیں اورالطریقة المسلوکة فی الدین ( دینی راہ)کے دائرے میں آتے ہیں۔ حضرت مولانا تھانویفرماتے ہیں: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز پر ہونے کے یہ معنی نہیں کہ بالکل ویسا ہی لباس ہو جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا ؛ بلکہ جس لباس کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت ہو ، وہ بھی حضور ہی کا طرز ہے، اور جو اس پر ہو وہ بھی حضور ہی کے طرز پر ہے (تسہیل المواعظ، وعظ نمبر: ۱۳، ص ۳۰۵)۔عام طور پر ہندوپاک کے علما ئے کرام اور صلحائے عظام کلی دار کرتا استعمال کرتے ہیں، جس میں اگلا اور پچھلا دونوں طرف کا حصہ تین تین کپڑوں کو آپس میں سی کر بنایا جاتا ہے؛ لہٰذا ایسا کرتا بھی مسنون وشرعی لباس میں داخل ہوگا۔

    والسنة نوعان: سنة الھدی وترکھا یوجب إساء ة وکراھیة کالجماعة والأذان والإقامة ونحوھا، وسنة الزوائد وترکھا لا یوجب ذلک کسیر النبي صلی اللہ علیہ وسلم في لباسہ وقیامہ وقعودہ (رد المحتار)، وعن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم (سنن أبي داود، کتاب اللباس، باب في لبس الشہرة، ۲:۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱،ط: دار الفکر بیروت، مشکاة المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني،ص:۳۷۵ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، ”من تشبہ بقوم“أي: من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار الخ (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح، ۸:۲۲۲،ط:دار الکتب العلمیة بیروت)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند