عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت
سوال نمبر: 149826
جواب نمبر: 149826
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 588-553/N=6/1438
گناہ سے نفرت کریں، گنہگار سے نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ گناہ کی وجہ سے گنہگار کی ذات کو حقیر ومعمولی نہ سمجھیں، ممکن ہے کہ وہ گناہ سے تائب ہوکر اللہ کا نیک ومقرب بندہ ہوجائے۔ اور گنہگار کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، ملنا جلنا اور دیگر دوستانہ مراسم و تعلقات باقی رکھنا یہ گناہ سے نفرت کے تقاضہ کے خلاف ہے؛ اس لیے بنی اسرائیل پر جو عذاب آیا، وہ اس وجہ سے کہ انہوں نے گناہ سے نفرت کے تقاضہ کو پورا نہیں کیا؛ بلکہ انہوں نے چند مرتبہ کے بعد روک ٹوک کا کام بند کردیا تھا، نیز جب وہ منع کرنے کے باوجود باز نہیں آئے تو ان سے دوری او کنارہ کشی ضروری تھی جو انہوں نے نہیں کی؛ اس لیے ان پر عذاب آیا، بنی اسرائیل پر عذاب آنے کی یہ وجہ نہیں تھی کہ انہوں نے گناہ سے تو نفرت کی، گنہگار سے نہیں، یعنی: گناہ کی وجہ سے گنہگاروں کو حقیر ومعمولی نہیں سمجھا۔ ﴿فلما فعلوا ذلک﴾: أي: ترکوا الأمر بالمعروف والنھي عن المنکر (بذل المجھود، کتاب الملاحم، باب فی الأمر والنھي، ۱۲: ۳۹۲، ط: دار البشائر الإسلامیة، بیروت)، لأن موٴاکلتھم ومشاربتھم من غیر إکراہ وإلجاء بعد عدم انتھائھم عن معاصیھم معصیة ظاھرة ؛لأن مقتضی البغض فی اللہ أن یبعدوا عنھم ویھاجروھم ویقاطعوھم ولا یواصلوھم (مرقاة المفاتیح، کتاب الآداب، باب الأمر بالمعروف، الفصل الثاني، ۹: ۳۴۲، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند