• عقائد و ایمانیات >> حدیث و سنت

    سوال نمبر: 149826

    عنوان: گناہ سے نفرت کریں گناہ گار سے نہیں‏، كیا یہ جملہ حدیث كے خلاف نہیں؟

    سوال: کیا یہ جملہ ، گناہ سے نفرت کریں گناہ گار سے نہیں ۔مندرجہ ذیل حدیث سے ٹکراتا ہے ؟ جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں ۔ عن بن مسعود، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن أول ما دخل النقص علی بنی إسرائیل، أنہ کان الرجل یلقی الرجل، فیقول: یا ہذا، اتق اللہ ودع ما تصنع، فإنہ لا یحل لک، ثم یلقاہ من الغد، فلا یمنعہ ذلک أن یکون أکیلہ وشریبہ وقعیدہ، فلما فعلوا ذلک ضرب اللہ قلوب بعضہم ببعض، ثم قال لعن الذین کفروا من بنی إسرائیل فاسقون رواہ أبو داود والترمذي وقال حدیث حسن لفظہ لأبی داود․ اس حدیث کا خلاصہ یہی ہے کہ بنی اسرائیل گناہ سے نفرت کرتے تھے گناہ گار سے نہیں، گناہ سے منع کرتے تھے لیکن گناہ گار سے اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا ترک نہیں کرتے تھے یعنی تعلقات متأثر نہیں ہونے دیتے تھے اس وجہ سے مستحق عذاب ٹھہرے، معلوم ہوا کہ فسق اور فاسق دونوں سے نفرت ضروری ہے۔

    جواب نمبر: 149826

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 588-553/N=6/1438

    گناہ سے نفرت کریں، گنہگار سے نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ گناہ کی وجہ سے گنہگار کی ذات کو حقیر ومعمولی نہ سمجھیں، ممکن ہے کہ وہ گناہ سے تائب ہوکر اللہ کا نیک ومقرب بندہ ہوجائے۔ اور گنہگار کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، ملنا جلنا اور دیگر دوستانہ مراسم و تعلقات باقی رکھنا یہ گناہ سے نفرت کے تقاضہ کے خلاف ہے؛ اس لیے بنی اسرائیل پر جو عذاب آیا، وہ اس وجہ سے کہ انہوں نے گناہ سے نفرت کے تقاضہ کو پورا نہیں کیا؛ بلکہ انہوں نے چند مرتبہ کے بعد روک ٹوک کا کام بند کردیا تھا، نیز جب وہ منع کرنے کے باوجود باز نہیں آئے تو ان سے دوری او کنارہ کشی ضروری تھی جو انہوں نے نہیں کی؛ اس لیے ان پر عذاب آیا، بنی اسرائیل پر عذاب آنے کی یہ وجہ نہیں تھی کہ انہوں نے گناہ سے تو نفرت کی، گنہگار سے نہیں، یعنی: گناہ کی وجہ سے گنہگاروں کو حقیر ومعمولی نہیں سمجھا۔ ﴿فلما فعلوا ذلک﴾: أي: ترکوا الأمر بالمعروف والنھي عن المنکر (بذل المجھود، کتاب الملاحم، باب فی الأمر والنھي، ۱۲: ۳۹۲، ط: دار البشائر الإسلامیة، بیروت)، لأن موٴاکلتھم ومشاربتھم من غیر إکراہ وإلجاء بعد عدم انتھائھم عن معاصیھم معصیة ظاھرة ؛لأن مقتضی البغض فی اللہ أن یبعدوا عنھم ویھاجروھم ویقاطعوھم ولا یواصلوھم (مرقاة المفاتیح، کتاب الآداب، باب الأمر بالمعروف، الفصل الثاني، ۹: ۳۴۲، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند