معاشرت >> ماکولات ومشروبات
سوال نمبر: 39232
جواب نمبر: 39232
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1192-193/B=6/1433 ہمیں اس کی تحقیق نہیں کہ یہ در اصل دلیم تھا پھر تبدیل ہوکر حلیم بن گیا۔ ہم نے اپنے استادوں سے سنا تھا کہ شیعانِ کوفہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرکے فارغ ہوئے تو ان لوگوں کے پاس جو کچھ گیہوں، جو دالیں، چاول تھے سب نے اکٹھاکرکے ایک ہی ساتھ پکاکر کھایا تھا، یہاں سے کھچڑے (حلیم) کی ابتدا ہوئی ہے۔ بعد میں اس کو گوشت مصالحے وغیرہ ڈال کر مہذب اور لذیذ بنالیا گیا ہے۔ یہ لفظ ”حلیم“ اللہ کے اسمائے حسنی میں سے ہے، کھانے کو اس نام سے موسوم کرنا، مناسب نہیں، معنی کے اعتبار سے بھی یہ نام مناسب نہیں کیونکہ حلیم بردبار کو کہتے ہیں، اور یہ مرچ مصالحے کی وجہ سے ا تنا چٹ پتا ہوتا ہے کہ کھاتے وقت آنکھ سے ناک سے پانی گرنے لگتا ہے، یعنی یہ حقیقت میں تو عضباک ہے اور نام اسکا حلیم (بردبار) رکھ دیا گیا ہے۔ حضرت تھانوی کا واقعہ مشہور ہے کہ کسی کے یہاں ان کی دعوت ہوئی، اس نے حلیم کھلایا اور اس قدر چٹ پٹا بنا رکھا تھا کہ کھاتے وقت حضرت تھانوی کے آنکھ سے ناک سے خوب پانی نکلنے لگا تو حضرت نے فرمایا ”کس ظالم نے اس کا نام حلیم رکھا ہے یہ بہت غضبناک ہے“۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند