عقائد و ایمانیات >> فرق باطلہ
سوال نمبر: 38618
جواب نمبر: 38618
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 589-660/N=9/1433 (۱) بوہرہ فرقہ سے مناکحت کے جواز او رعدم جواز کا مدار: اس فرقہ کا مسلمان ہونا یا نہ ہونا ہے، یعنی: یہ فرقہ اگر مسلمان ہے تو اس سے مناکحت جائز ہوگی ورنہ نہیں، اور کسی بھی فرقہ کے مسلمان ہونے اور نہ ہونے کا مدار اس کے عقائد ہوتے ہیں، اس لیے بوہرہ فرقہ کے عقائد اگر کفریہ ہیں، مثلاً یہ لوگ امت مسلمہ کے درمیان موجود تیس پاروں کے قرآن کو محرف، ناقص او رغیر معتبر مانتے ہیں یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں اور قرآن کی پیش کردہ براء ت کو نہیں مانتے یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرتے ہیں یا حضرت علی رضی اللہ عنہ میں اللہ تعالی کا حلول مانتے ہیں یا وحی پہنچانے میں حضرت جبریل علیہ السلام کی طرف سے غلطی کی نسبت کرتے ہیں یا کوئی اور ایسا ہی عقیدہ رکھتے ہیں جس سے ضروریات وقطعیات دین میں سے کسی کا انکار لازم آتا ہے تو یہ فرقہ باجماعِ امت کافر اور دائرہٴ اسلام سے خارج ہے: قال في رد المحتار (کتبا الجہاد باب المرتد: ۶/ ۳۷۸، ط: زکریا دیوبند): لاشک في تکفیر من قذف السیدة عائشة رضی اللہ عنہا أو أنکر صحبة الصدیق أو اعتقد الألوہیة في علي أو أن جبریل غلط في الوحي أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن إھ وقال فيا لفتاوی الہندیة (کتاب السیر الباب التاسع في أحکام المرتدین مطلب: موجبات الکفر أنواع: ۲/۲۶۴، ط: زکریا دیوبند): ویجب إکفار الروافض في قولہم برجعة الأموات إلی الدنیا وبتناسخ الأرواح وانتقال روح الإلہ إلی الأئمة وبقولہم إن جبریل علیہ السلام غلط في الوحي إلی محمد صلی اللہ علیہ وسلم دون علي بن أبي طالب رضي اللہ عنہں وہوٴلاء القوم خارجون عن ملة الإسلام وأحکامہم أحکام المرتدین کذا في الظہیریة إھ اور اگر ان کے عقائد کفریہ نہیں ہیں تو یہ فرقہ کافر ومرتد نہ ہوگا اور اس سے مناکحت جائز ہوگی، لیکن گمراہ اور اہل السنت والجماعت سے خارج ضرورہے، اس لیے اس سے نکاح کرنا اچھا نہ ہوگا۔ (۲) نکاح درست ہونے کی صورت میں دونوں باہم میاں بیوی ہوں گے اور باہم ازدواجی تعلق قائم کرنا بھی جائز ہوگا، اور اگر کسی وجہ سے دونوں میں نباہ نہ ہو رہا ہو، تو طلاق وغیرہ ضروری ہوگی، صرف عملی تفریق کافی نہ ہوگی، اور اگر نکاح درست نہیں ہوا تو صرف عملی تفریق کافی ہوگی، طلاق وغیرہ کی ضرورت نہ ہوگی۔ (۳) یہ فرقہ اگر مسلمان ہے تو ان کے درمیان اور سنیوں کے درمیان توارث ہوگا؛ یہ سنیوں کے وارث ہوں گے اور سنی ان کے وارث ہوں گے اور سنی ان کے وارث ہوں گے، بشرطیکہ کوئی اور مانع ارث سبب یا حاجب نہ ہو، اور اگر مسلمان نہیں ہے تو ان کے درمیان اور مسلمانوں کے درمیان توارث نہ ہوگا، کذا فی کتب الفرائض۔ آپ کے کسی بھی سوال کے جواب میں کوئی حتمی حکم اس لیے نہیں لکھا جاسکا کہ کوشش اور جستجو کے باوجود بوہرہ فرقہ کے عقائد کا علم نہ ہوسکا۔ نوٹ: آپ جن لوگوں کے بارے میں سوال کررہے ہیں، ان کے عقائد واعمال کی تحقیق کرکے اس کی تفصیل لکھ کر حکم معلوم کریں۔(د)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند