• معاشرت >> تعلیم و تربیت

    سوال نمبر: 62185

    عنوان: بنات کیلئے مستقل مدرسہ بنانے کا شرعی حیثیت

    سوال: (۱) بنات کیلئے مستقل مدرسہ بنانے کا شرعی حیثیت کیا ہے ؟ (۲) نیزان سے معلم کیلئے عبارت سننا جائز ہے یا ناجائز؟

    جواب نمبر: 62185

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 69-69/Sd=2/1437-U (۱) لڑکیوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے مستقل مدرسہ قائم کرنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اس میں مخلوط تعلیم نہ ہو، نیز لڑکیوں کے مدرسے میں آنے جانے کا ایسا نظم کیا جائے کہ جس میں فتنے کا احتمال باقی نہ رہے اور اُن کی تعلیم و تربیت کے لیے نیک، دیندار اور پاکدامن عورتوں کو مقرر کیا جائے، اگر ایسی معلمات نہ مل سکیں، تو مجبوری میں نیک و صالح سن رسیدہ قابل اعتماد مردوں کو بھی مقرر کیا جاسکتا ہے، جو مکمل پردے کی پابندی کے ساتھ تعلیم دیں۔ حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب فرماتے ہیں: ” جملة الامر ایں کہ مدارس صبیات مختصہ بصبیات باشد، و اجتماع و حضور و آمد و رفت ایشاں بمدارس بطورے منضبط کردہ شود کہ احتمال تطرق فساد باقی نماند۔ نسائے صالحات را خدمت تعلیم و تہذیب تفویض کردہ شود، اگر زنان معلمہ میسر نہ آیند باضطرار رجال صالحین معتمد علیہم را معین نمایند و مراقبہ احوال ایشاں لازم دانند۔ (کفایت المفتی: ۲/ ۴۲، کتاب العلم، ط: زکریا، دیوبند) (۲) اگر فتنے کا خوف نہ ہو، تو پردے میں معلم لڑکیوں کی عبارت سن سکتا ہے۔ (فتاوی دار العلوم: ۱۶/۲۰۶، ۲۰۷، پردے اور ستر کے احکام)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند