Q. میرے بیٹے کی عمر ۱۹/ سال ہے، الحمد للہ ، اس کامزاج دینی ہورہاہے، مزید دین کی باتیں سیکھنے کے لیے وہ اجتماع وغیرہ میں جاناچاہتاہے، وہ بی بی اے کے پہلے سال میں پڑھ رہاہے، اس لیے میں نے ا سے اسلامی علوم جاننے کے لیے گھر ہی پر قرآن کریم اوراس کی تفسیر پڑھنے کے لیے کہاہے تاکہ وہ ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی پر بھی دھیان دے سکے۔ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد وہ اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوگا۔ اس کہنا ہے کہ قرآن کا ترجمہ نہیں پڑھنا چاہئے کیونکہ ممکن ہے کہ پڑھنے والاغلط معنی سمجھ لے جو بہت بڑا گناہ ہے۔(شایدہماری مسجد کے پیش امام نے اسے یہ کہاہے) میں نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ علمائے کرام نے قرآن کے ترجمے اور تفاسیر لکھے ہیں اور ان کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگ قرآن کو اپنے گھر بیٹھے کر پڑھ سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں۔ ہاں! اگر قاری کو کہیں سمجھ میں نہ آئے تووہ کسی عالم سے ملاقات کرکے اس کو سمجھ لے ۔ کیا میرا یہ کہنا صحیح ہے؟ اگر نہیں ! تو براہ کرم، میری رائے پر روشنی ڈالیں۔بہت ہی مناسب ہوگاکہ آپ اس سلسلے میں کچھ احادیث کا حوالہ دیں تاکہ ہم دونوں اور ہمارے بیٹے کے لیے مفید ہوں۔نیز کسی عالم کے قرآن کریم کے انگریزی اور اردو ترجمہ اور تفسیر کے بارے میں بتائیں جسے وہ پڑھ کر سمجھ سکے۔