• معاشرت >> تعلیم و تربیت

    سوال نمبر: 51210

    عنوان: بچوں كی پرورش كا حق كس كو ہے؟

    سوال: میری طلاق کے بعد بھی اللہ کی رضا کی خاطر میں نے ان کے والد اور ان کے گھروالوں کے ساتھ کے رشتے میں کوئی رکاوٹ ڈالی نہیں جب ملنا چاہا ملوایا ، کبھی کوئی کڑوی بات بچوں سے کہی نہیں، میں بچوں کی تربیت کا جو حق ہے اسے اپنے پاس رکھنا چاہتی ہوں، ان کے والد صاحب جن کی رہ جو بے دینی ، خودغرضی اور لالچ سے برھی ہے، ان کے گھر جو میں نے حالت اور ماحول دیکھا ہے ، میں اللہ کو حاضر رکھ کے یہ بات کہتی ہوں کہ ان کے یہاں میرے بچوں کے دینی اور دنیاوی تربیت کا خطرہ ہے، میں بچوں کو ان کو سونپنانہیں چاہتی ، میں اس میں لکھی ساری باتوں کی سچائی کی گواہی دیتی ہوں ، اگر میں بچوں کے دونون جہاں کی بہتری کے لیے ان کو ان کے والد کو سونپنے سے انکار کرتی ہوں تو کیا میں گناہ گار ہوں؟

    جواب نمبر: 51210

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 0000-0000/N=8/1435-U شریعت نے عورت کو بچوں کی سات سال کی عمر تک پرورش کا حق دیا ہے، اس کے بعد عورت کا حق پرورش ختم ہوجاتا ہے، اور باپ کو بچے اپنے پاس رکھنے کا حق ہوجاتا ہے، کیوں سات سال کے بعد بچوں کو ماں کی خدمت کی ضرورت نہیں رہتی اور اس عمر کے بعد بچوں کے مصالح وضروریات باپ، ماں سے زیادہ بہتر طریقہ پر انجام دے سکتا ہے وأما بیان من لہ الحضانة فالحضانة تکون للنساء في وقت وتکون للرجال في وقت، والأصل فیہا النساء لأنہن أشفق وأرفق وأہدی إلی تربیة الصغار، ثم تصرف إلی الرجال لأنہم علی الحمایة والصیانة وإقامة مصالح الصغار أقدر (بدائع الصنائع ۳: ۴۵۶ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند)؛ اس لیے صورت مسئولہ میں جس بچہ کی عمر چاند کے حساب سے مکمل سات سال کی ہوچکی ہے آپ وہ بچہ اس کے والد کے حوالہ کردیں، اب اس کی ساری دیکھ ریکھ اور تربیت وغیرہ اس کے والد کریں گے، اگر آپ وہ بچہ زبردستی اپنے پاس رکھیں گی تو گنہ گار ہوں گی، البتہ جو بچہ ابھی سات سال کا نہیں ہوا ہے آپ اسے سات سال کی عمر مکمل ہونے تک اپنے پاس رکھ سکتی ہیں، آپ کو اس کی پرورش کا ابھی حق ہے، البتہ بالغ ہونے کے بعد بچہ کو اختیار ہوگا کہ وہ ماں باپ میں سے جس کے پاس چاہے رہے۔ اور رہا مسئلہ بچوں کے باپ کے گھر کا ماحول خراب ہونے کا تو باپ اس کی بھی فکر کرے گا، اور اگر وہ بچوں کی تربیت میں کوتاہی کرے گا تو آخرت میں اس کی گرفت ہوگی، آپ کی نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند