معاشرت >> تعلیم و تربیت
سوال نمبر: 163851
جواب نمبر: 163851
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1124-150T/L=1/1440
(۱) مسجد میں گاوٴں کے لوگوں اور بچوں کو احتیاط کے ساتھ فی سبیل اللہ قرآن کریم کی تعلیم دینے کی شرعاً اجازت ہے البتہ فقہاء نے مسجد میں مستقل قیام کو مکروہ لکھا ہے اور صرف معتکف یا مسافر اور پردیسی کو قیام کی اجازت ہے نیز بالعموم بچے آداب مسجد کی رعایت نہیں کرتے اس کے علاوہ مسجد میں تعلیم دینا مستقل ایک مکروہ عمل ہے بنا بریں مسجد کے بجائے مدارس میں تعلیم کا انتظام کیا جائے۔
(۲) مقتدیوں کی صف اور امام کے مصلی کے درمیان اتنا فاصلہ ہونا چاہئے کہ سکون و اطمیان سے وہ لوگ سجدہ کریں اور مقتدیوں کا بدن امام کے بدن سے مس نہ ہو تاکہ نماز کے اندر خشوع وغیرہ میں فرق نہ پڑے۔
(۳) قیام، رکوع، سجدہ پر قادر شخص کے لئے نماز میں ان تمام ارکان کو ادا کرنا فرض ہے اگر رکوع و سجدہ پر قدرت ہوتے ہوئے فرض نماز کرسی پر بیٹھ کر ادا کی جائے تو رکن کے فوت ہونے کی وجہ سے نماز نہ ہوگی نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا۔ یہاں تک کہ اگر نماز میں قیام کے کچھ حصے پر قادر ہے مکمل طور پرقیام پر قدرت نہیں تو جتنی دیر قیام کر سکتا ہے خواہ کسی عصا یا دیورا پر ٹیک لگا کرہی کیوں نہ ہو اتنی دیر قیام کرنا فرض ہوگا اگر اتنی دیر قیام نہیں کیا یا ٹیک لگا کر کھڑا نہیں ہوا اور بیٹھ کر نماز مکمل کی تو نماز نہیں ہوگی لیکن اگر کوئی شخص قیام پر قادر ہے مگر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے میں رکوع سجدہ یا صرف سجدہ پر قادر نہیں تو قرأت کرسی پر بیٹھنے کے بجائے کھڑے ہوکر ہی کرنی چاہئے بقیہ ارکان کو کرسی پر بیٹھ کر اشارے سے ادا کرلے تو بھی جائز ہے ۔
واضح رہے کہ عاجز کے لئے قیام کی حالت میں رکوع سجدہ ہاتھ یا سر کے اشارے سے اگر چہ جائز ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ بیٹھنے کی حالت میں ان کو ادا کرے۔ لأن المسجد مابنی إلا لہا من صلاة واعتکاف وذکر شرعی وتعلیم علم وتعلمہ وقراء ة قرآن (بحرالرائق: ۲/۶۰، ط: زکریا، دیوبند) تعلیم الصبیان فی المسجد لا بأس بہ (ردالمحتار: ۹/۶۱۳، ط: زکریا، دیوبند) والنوم فیہ لغیر المعتکف مکروہ وقیل لا بأس بہ للغریب أن ینام فیہ والاولی أن ینوی الاعتکاف لیخرج من الخلاف (حلبی کبیر: ۶۱۳) من فرائضہا القیام عن فرض لقادر علیہ وعلی السجود (الدر مع الرد: ۲/۱۳۲) وإن قدر علی بعض القیام ولو متکئا علی عصا أو حائط قام لزوما بقدر ما یقدر ولو قدر آیت أو تکبیرة علی المذہب لأن البعض معبر بالکل (الدر مع الرد: ۲/۵۶۷)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند